پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے فضائی حدود بند کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ فیصلہ سوچ بچار اور ہر پہلو کو دیکھ کر کیا جائے گا۔ ان کے بقول، اس کا حتمی فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کریں گے۔
اسلام آباد میں نادرا ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے موقع پر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے تو مودی نے یک طرفہ قدم کیوں اٹھایا؟
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ مثالی تعلقات ہیں، جب کہ ایران نے بھی کشمیر کے معاملے پر بھرپور بیان دیا ہے جس پر ایرانی قیادت کے شکرگزار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو جمعے کی نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ شملہ معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے کے پابند تھے تاہم بھارت نے یکطرفہ فیصلہ کر کے ماحول خراب کر دیا ہے۔
'اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کریں گے'
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے تیاریاں کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کی عالمی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کا شیڈول طے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کشمیر کا مقدمہ بھرپور انداز میں اقوام متحدہ کے سامنے رکھیں گے۔ وزیر اعظم اس بات پر زور دیں گے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
وزیر خارجہ کے بقول، بھارت کی جانب سے کشمیر میں کرفیو، خوراک کے بحران، صحت کی سہولیات کے فقدان سمیت کشمیریوں کو درپیش دیگر مسائل پر بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بات کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان یہ مطالبہ بھی کرے گا کہ اقوام متحدہ کے مبصرین کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر تک رسائی دی جائے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یو این سیکریٹری جنرل اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن، اصل رکاوٹ بھارت کی ہٹ دھرمی ہے۔ "ہم نے کئی بار انہیں مذاکرات کی پیشکش کی۔ لیکن مودی سرکار ایک سال سے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔"
'بھارتی عدلیہ بی جے پی کے دباؤ میں ہے'
بھارت کے کشمیر سے متعلق 5 اگست کے اقدامات کو بھارت میں مختلف حلقوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خدشہ ظاہر کیا کہ بھارت کی عدلیہ حکمراں جماعت کے دباؤ میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں 14 درخواستیں دائر ہو چکی ہیں۔
ان کے بقول، یورپ کے مختلف دارالخلافوں میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم طبقات بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
خیال رہے کہ پانچ اگست کو بھارت نے اپنے آئین میں کشمیر کو نیم خود مختار حیثیت دینے سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر دیا تھا۔ بھارت کے اس اقدام کو پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے معاملہ عالمی فورمز پر اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان کے اصرار پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ہوا۔ تاہم، تاحال اس حوالے سے مزید پیش رفت نہیں ہو سکی۔
بھارت کا یہ موقف رہا ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے اس کا داخلی معاملہ ہے۔ اس ضمن میں کسی تیسرے ملک کی ثالثی کی ضرورت نہیں۔ بھارتی حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ شملہ معاہدہ کے تحت پاکستان اور بھارت دوطرفہ بات چیت سے ہی مسائل حل کرنے کے پابند ہیں۔