رسائی کے لنکس

’سخت ہیں فطرت کی تعزیریں‘ ۔۔۔


مجھے یاد ہے کتنی ہی راتیں میں نے آنکھوں میں کاٹیں۔۔۔ سونے کی کوشش کرتی تو شاہ زیب کا مسکراتا چہرہ جیسے بار بار آنکھوں کے سامنے آجاتا۔۔۔ پھر شاہ رخ جتوئی کے چہرے کی رعونت اس عکس کو دُھندلا دیتی۔۔۔ غم کی جگہ غصہ لے لیتا۔۔۔ افسوس کی جگہ طیش۔۔۔ بے وقت، بے ثمر، بے اثر طیش۔۔۔ بھلا غُصّے اور طیش سے ان زخموں کا مداوا ممکن ہے؟۔۔۔

واشنگٹن ۔۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم صحافی لوگ خبر ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور بناتے بناتے بے حِس ہو جاتے ہیں۔ ہمارے لیے کوئی بھی واقعہ اور کوئی بھی شخص محض ایک خبر ہے۔ کہیں ٹارگٹ کلنک ہو، بس حادثے میں پچاس لوگ مر جائیں، ڈرون حملے بے گناہوں کی موت کا پیام بنیں، خودکُش دھماکے گھروں کے چراغ گُل کردیں، گاڑی میں سلنڈر پھٹ جانے سے معصوم بچے زندہ جل جائیں، ننھی بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جائے، کوئی ہتھوڑا گروپ شہر میں سرکرہ ہو جائے اور فٹ پاتھ پر سوئے لوگوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنائے۔۔۔ لوگوں کے مطابق یہ سب خبریں ہمارے نزدیک محض اخبار کے پنّوں پر لگنے والی ایسی خبریں ہیں جنہیں ہم انسانیت نہیں بلکہ ایک، دو یا چار کالم کی خبر کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔۔۔

یقیناً تشدد و فسادات، قتل و غارت گری کے خبروں کے اژدھام میں شاید ہم صحافی بھی تھوڑے بہت بے حِس ہو ہی چکے ہیں۔ مگر پھر خبروں کے اسی انبار میں جس میں ہم دن رات سر ڈالے بیٹھے ہوتے ہیں، کوئی ایک خبر، ایک ایسی علامت اور ایک ایسی چنگاری بن جاتی ہے جو محض اخبار کے صفحے یا ٹی وی کی سکرین پر ہی نہیں چیختی بلکہ آپ کے ذہن و دل کو بھی جھنجھوڑ ڈالتی ہے۔ سیدھا آپ کے دل پر وار کرتی ہے۔ ایسا کاری وار جو آپ کو کسی ذاتی اور زبردست نقصان کا احساس دلائے۔۔۔۔

مقتول شاہ زیب خان
مقتول شاہ زیب خان


ایسی ہی ایک خبر گذشتہ برس دسمبر کے جاتے دنوں میں ’شاہ زیب قتل کیس‘ کی تھی۔۔۔ قتل کی ایک عام سی واردات۔۔۔ وہی ہمارے معاشرے کا ایک اور گِھسا پِٹا افسانہ ۔۔۔ کہاں ایک سابق پولیس افسر کا بیٹا، کہاں ایک وڈیرے کا بانکا سجیلا۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی موازنہ ہُوا؟۔۔۔ اس کے باوجود یہ خبر جیسے میرے دل میں کھُب سی گئی۔۔۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے مقتول سے میرا کوئی بہت قریبی تعلق تھا۔ جیسے وہ میرا اپنا سگا چھوٹا بھائی تھا۔۔۔ ٹی وی پر چلتی خبریں، اخباروں کی ہیڈلائنز، دفتر میں ساتھیوں سے گفتگو میں غرض ہر جگہ شاہ زیب ہی موضوع ِ سخن تھا۔۔۔ سبھی کو اس خبر پر دکھ تھا، افسوس تھا، غم تھا۔۔۔

مجھے یاد ہے کتنی ہی راتیں میں نے آنکھوں میں کاٹیں۔۔۔ سونے کی کوشش کرتی تو شاہ زیب کا مسکراتا چہرہ جیسے بار بار آنکھوں کے سامنے آجاتا۔۔۔ پھر شاہ رخ جتوئی کے چہرے کی رعُونت اس عکس کو دُھندلا دیتی۔۔۔ غم کی جگہ غصہ لے لیتا۔۔۔ افسوس کی جگہ طیش۔۔۔ بے وقت، بے ثمر، بے اثر طیش۔۔۔ بھلا غُصّے اور طیش سے ان زخموں کا مداوا ممکن ہے؟۔۔۔

یکم جنوری 2013ء کو معلوم ہوا کہ چیف جسٹس صاحب نے اس خبر پر سُو موٹو ایکشن لے لیا ہے۔۔۔ مگر چیف جسٹس صاحب تو بہت سی خبروں کا نوٹس لیتے ہیں ایسے میں اس خبر پر سُو موٹو ایکشن چہ معنی دارد؟۔۔۔ پھر 5 جنوری 2013ء کو پتہ چلا شاہ رخ جتوئی بیرون ِ ملک فرار ہو گیا ہے۔۔۔ ٹی وی پر شاہ رُخ جتوئی کے والد نے فخریہ بتایا تھا کہ ان کا بیٹا پڑھائی کی غرض سے قتل کی رات ہی واپس جا چکا ہے۔۔۔ 5 جنوری 2013ء کو ہی سراج تالپور اور سجاد تالپور کو گرفتار کر لیا گیا۔۔۔ لیکن اس کیس کی ایک اہم کڑی 10 جنوری 2013ء کو سپریم کورٹ کے احاطے سے شاہ رخ جتوئی کے والد سکندر جتوئی کی گرفتاری تھی۔۔۔ جس کے بعد بہت سی گُتھیاں اُلجھتی سُلجھتی اور سُلجھتی اُلجھتی رہیں۔۔۔

بالآخر 17 جنوری 2013ء کی بریکنگ نیوز نے بہت سے دلوں کو مطمئن کیا۔۔۔ شاہ رُخ جتوئی کو دوبئی سے واپس پاکستان لایا گیا تھا۔۔۔ مگر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔۔۔ عدالتی کارروائی میں جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ میں شاہ رخ کو کم عمر ظاہر کیا گیا جسے انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے مسترد کر دیا گیا۔۔۔ ایک اور میڈیکل پینل نے شاہ رُخ کی عمر کا درست تعین کرکے اسے بالغ قرار دیا۔۔۔ وہیں سے مقدمے کا رُخ بدل گیا۔۔۔ اور آج شاہ زیب کے قاتلوں کو سزائے موت کا حقدار قرار دے دیا گیا۔۔۔


انسانیت کے ناطے مجھے شاہ رخ جتوئی سے ہمدردی سی محسوس ہوئی۔۔۔ ایک کم سن بچے کے قتل کے بعد ایک اور کم سن لڑکے کی پھانسی کی خبر کسی کے لیے بھی خوشی کا باعث نہیں بنی ہوگی۔۔۔ لیکن عدالت سے واپسی پر شاہ رُخ کے چہرے پر فخریہ اور وحشیانہ مسکراہٹ نے ہمدردی کے جذبات کو سُلا دیا اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ اگر میڈیا پوری قوت سے اس کیس کو اجاگر نہ کرتا، اگر چیف جسٹس صاحب سُو موٹو ایکشن نہ لیتے، اگر درست ایف آئی آر درج نہ کی جاتی، اگر عینی شاہدین اس واقعے میں گواہی نہ دیتے (جیسا کہ عموماً ہوتا ہے)، اگر میڈیکل بورڈ شاہ رُخ کی عمر کا درست تعین نہ کرتا، اگر سول سوسائٹی آواز بلند نہ کرتی اور اگر اس کیس کے دوران اتنا دباؤ نہ ہوتا تو کیا اورنگزیب خان (شاہ زیب کے والد) کو انصاف ملنا ممکن ہوتا؟ ۔۔۔ اگر، اگر، اگر ۔۔۔

کیا پتہ شاہ زیب قتل کیس کے بعد ولی خان بابر (صحافی جسے کراچی میں قتل کیا گیا تھا اور جس کے کیس کے تمام گواہوں کو بھی یکے بعد دیگرے قتل کر دیا گیا) اور حال ہی میں ٹارگٹ کلنک کا نشانہ بنائے جانے والی کراچی میں تحریک ِ انصاف کی سندھ کی سینئیر نائب صدر زہرہ شاہد حسین کے قاتلوں کی گرفتاری تک لے جائے۔۔۔

مجرم شاہ رُخ جتوئی
مجرم شاہ رُخ جتوئی


شاہ زیب کے قاتلوں کو سزا ملنا ایک خوش آئند اقدام اور علامت ہے۔۔۔ علامت ہے انصاف کی، علامت ہے غریب اور امیر کے درمیان تخصیص زدہ معاشرے کی، سچ اور جُھوٹ کی، رشوت ستانی اور ایمانداری کی، حق اور باطل کی، ظالم کی اور مظلوم کی۔۔۔۔ لیکن یہی کیس ایک اور علامت بھی ہے۔۔۔ ہمارے معاشرے کے بدبُودار اور تعفّن زدہ ماحول اور سسٹم کے نقائص کی۔۔۔ اس کیس کی مثال ہی لیجیئے۔۔۔ پہلے ایف آئی آر نہیں درج کی جا رہی تھی، پھر شاہ رخ جتوئی کو فرار کرا دیا گیا، پھرعدالت میں شاہ رخ جتوئی کی عمر سے متعلق غلط رپورٹ جمع کرائی گئی، پانچ دفعہ پراسیکیوٹر (وکیل ِاستغاثہ) بدلا گیا اور بارہا ججز اور شاہ زیب کے اہل ِ خانہ پر دباؤ ڈالا گیا۔۔۔

بظاہر یہ کیس ختم ہوگیا ہے لیکن اپنے پیچھے بہت سے اہم سوال چھوڑ گیا ہے۔۔۔ کیا شاہ رخ جتوئی کو ملک سے فرار کرانے والوں کا احتساب کیا جائے گا؟ کیا عدالت میں غلط میڈیکل رپورٹ پیش کرنے والوں کا تعین کیا جائے گا؟ کیا ملک میں موجود ان روایتی، ثقافتی، سماجی اور قانونی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی جن کے باعث اس ملک کے ہزاروں شاہ زیبوں کے قتل کی فائلیں کسی سرکاری دفتر میں گرد و غبار سے اٹی پڑی ہیں اور جن کے لواحقین کے آنسو تک خشک ہو چکے ہیں۔۔۔ کیا سسٹم میں موجود ان نقائص کا خاتمہ کیا جائے گا جس میں طاقتور گناہ کرکے بھی بے گناہ رہتا ہے؟کیا اس ملک میں موجود مکروہ ’وڈیرانہ سوچ‘ اور ’وڈیرا سسٹم‘ کا خاتمہ کیا جاسکے گا؟۔۔۔ جس میں کبھی شاہ رخ جتوئی کسی شاہ زیب کو قتل کر دیتا ہے اور کبھی بلال کھر جیسا وڈیرا فائزہ پر تیزاب پھینک کر اس کی روح اور جسم کو ایسا جھُلساتا ہے کہ جس کا مداوا وہ رَوم میں چھٹی منزل سے نیچے گر کر خودکشی کی صورت میں کرتی ہے۔۔۔

یقیناً معاشرے کو درپیش اِن مسائل کے سُقم ختم کرنے کے لیے ایک لمبا سفر درکار ہے۔۔۔۔ لیکن ہر سفر کے لیے شرط ہوتا ہے وہ پہلا قدم جو منزل کا حصول آسان بناتا ہے۔۔۔ ہمارے اس گھٹن زدہ معاشرے میں شاہ زیب کے قاتلوں کی سزائے موت کی خبر بھی بظاہر ایک ایسا ہی قدم دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔۔


شاہ زیب کیس میں اپیل کے لیے ابھی سات روز باقی ہیں۔۔۔ خدا خیر کرے، کہیں ان سات دنوں میں بساط الٹ نہ جائے، کہیں شاہ زیب کے اہل ِ خانہ کو زچ کرکے زبردستی دیت یا معافی کا اعلان نہ کرا دیا جائے؟ کہیں انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور نہ کر دیا جائے؟ کہیں سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو اور سالوں تک کیس کی سماعت ہی ہوتی رہے اور اس کے بعد کہیں یہ سزائے موت عمر قید میں نہ بدل جائے۔۔۔۔ کہیں کچھ ایسا نہ ہوجائے کہ اس ملک میں قانون ایک بار پھر وڈیرے کی طاقت کے آگے کمزور تنکے کی مانند بہتا چلا جائے اور امید کی کوئی رمق باقی نہ رہے !!

بقول علاّمہ اِقبال

حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔۔۔

مدیحہ انور ۔ فیس بک پیج
مدیحہ انور ۔ ٹوئٹر اکاؤنٹ

XS
SM
MD
LG