قسط نمبر 9 ۔۔۔ اسلامی عقیدے کے مطابق الخلیل کو مکہ ِمکرمہ، مدینہ ِمنورہ اور یروشلم کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے چوتھا مقدس ترین شہر مانا جاتا ہے۔
قسط نمبر 8۔۔۔ دیوار پر لگے پوسٹرز میں فلسطینیوں نے مختصر کہانیوں میں بیان کیا ہے کہ کس طرح یہ دیوار ان کی زندگیوں کو تقسیم کرنے کا سبب بنی اور کیسے دیوار کے اِس پار رہنے والے لوگ دیوار کے اُس پار رہنے والے اپنے خاندانوں سے ملنے سے قاصر ہیں۔
قسط نمبر 7 ۔۔۔ مردوں کے حصے میں غلغلہ زیادہ تھا۔ مرد حضرات اونچی آواز میں عبادت کر رہے تھے اور رو رہے تھے۔ مردوں کی اکثریت نے سفید کپڑے سے اپنے سر اور چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ وہ دیوار کے ساتھ گم سم کھڑے تھے اور دیوار کو چوم رہے تھے۔۔۔
قسط نمبر 6 ۔۔۔ سوچا، نیچے واقع بن یہودا مارکیٹ جاتی ہوں وہاں کسی نہ کسی کیفے میں چائے یا کافی کی ایک پیالی تو مل ہی جائے گی۔ مگر ہائے رے قسمت، دس پندرہ منٹ تک اکا دکا کھلے ہوئے کیفے اور کافی شاپ سے گرم چائے اور کافی کے سوال پر صرف ’گھوریاں‘ اور سخت لہجے میں ’آج شابات ہے‘ جیسے جواب ہی میسر آئے۔
قسط نمبر 5 ۔۔۔ جبل الزیتون وہ مقام یا پہاڑ ہے جو یروشلم شہر کو صحرائے یہودا سے الگ کرتا ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے سے مشرقی سرحد کے طور پر یروشلم کی نگہبانی کرتا چلا آ رہا ہے۔
قسط نمبر 4 ۔۔۔ فاطمہ مجھے قہوہ کی ایک اور پیالی پلانے پر بضد تھی، مگر میں نے تنگی ِوقت کا بہانہ کرکے اس مہربان میزبان سے رخصت چاہی جو ان چالیس منٹ میں ہی مجھے دل و جان سے اپنی بیٹی بنا کر بارہویں اولاد کا درجہ دے چکی تھی۔۔۔
قسط نمبر 2 ۔۔۔ اسرائیلی حکام پاسپورٹ پر مہر ثبت کرنے کی بجائے ایک علیحدہ کاغذ پر داخلے کی اجازت یا ’انٹری پرمٹ‘ دیتے ہیں۔ مگر یہ انٹری پرمٹ سوالات کے ایک لامتناہی سلسلے کے کڑے مرحلے سے گزر کر ہی ہاتھ میں تھمایا جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے کتنی ہی راتیں میں نے آنکھوں میں کاٹیں۔۔۔ سونے کی کوشش کرتی تو شاہ زیب کا مسکراتا چہرہ جیسے ہر بار آنکھوں کے سامنے آجاتا۔۔۔ پھر شاہ رخ جتوئی کے چہرے کی رعونت اس عکس کو دُھندلا دیتی۔۔۔ غم کی جگہ غصہ لے لیتا۔۔۔ افسوس کی جگہ طیش۔۔۔ بے وقت، بے ثمر، بے اثر طیش۔۔۔ بھلا غُصّے اور طیش سے ان زخموں کا مداوا ممکن ہے؟۔۔۔
کبھی کبھی مجھے اپنا آپ ہی بُرا لگنے لگتا، مجھے یوں محسوس ہوتا کہ ایک نیک سیرت اور مشرقی اصولوں کی پاسداری کرنے والی لڑکی کو ورغلانے پر مجھے اللہ میاں سے سزا ضرور ملے گی۔۔۔
وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میں بلوچستان کے حالات کا اندازہ نہیں کر سکتی، میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ لا پتہ ہوجانے والوں کے خاندانوں پر کیا گزرتی ہے؟ اور میں انہیں بتانا چاہتی تھی کہ ۔۔۔۔
ہم حیران رہ گئے اور ان کی بات کاٹ کر بولے، ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس مرتبہ تو انتخابات انتہائی ’شفاف‘ اور ’غیر جانبدار‘ تھے؟‘‘ ہمارے دوست نے ایک قہقہہ لگایا اور بولے، ’’پاکستان سے اتنے دور بیٹھے یہاں پر ’سب اچھا ہے‘ ہی لگتا ہے۔‘‘
’بتائیں نا مدیحہ خالہ، آپ نے کس کو ٹھپہ لگایا؟‘، آئرہ کے تجسس نے ایک مرتبہ پھر میرے خیالات کا تسلسل توڑا۔۔۔ میں نے مسکرا کر اس کا گال تھپتھپایا اور بتایا کہ میں نے جمہوریت کو ٹھپہ لگایا ہے۔
مزید لوڈ کریں