پاکستان کے لئے دو بار ’آسکر‘ جیتنے والی شرمین عبید چنائے نے گلہ کیا ہے کہ ”میری فلم کو اور مجھے دنیا بھر میں ’ستاشی‘ نظروں سے دیکھا جا رہا ہے، لیکن اپنے ہی ملک میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ میرے لئے حیران کن ہے۔ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے میں نے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔“
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”اکیڈمی ایوارڈ پانے والی ایک اور فلم ’سرچ لائٹ‘ کا موضوع چرچ میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کا احاطہ کرتا ہے، لیکن وہاں کسی نے یہ نہیں کہا کہ فلم بدنامی کا باعث بن رہی ہے، جبکہ میری فلم ’اے گرل ان دی ریور: دی پرائس آف فارگیونس‘ میں، میں نے پاکستان کا مثبت یا منفی نہیں ’حقیقی‘ چہرہ پیش کیا ہے جسے دیکھ کر ایوان اقتدار میں سخت قوانین بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ میری نہیں پاکستان کی ہر عورت کی جیت ہے۔“
شرمین عبید چنائے نے ان خیالات کا اظہار کراچی میں وائس آف امریکہ سمیت دیگر میڈیا نمائندوں سے گفتگو کے دوران کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ فلم کے اسسٹنٹ پروڈیوسر واصف ارشد اور فلم ایڈیٹر زحرہ بھی موجود تھیں۔
شرمین کا کہناتھا کہ”تیزاب پھینکنا اور غیرت کے نام پر قتل بدقسمتی سے ہماری ’روایات‘ شمار ہونے لگی ہیں حالانکہ ہمارے مذہب میں غیرت کے نام پر قتل کی کوئی گنجائش۔اس مسئلے پر جب تک بات نہیں ہوتی تب تک تبدیلی لانا بھی ممکن نہیں تھا۔ اگر آج تبدیلی کی بات ہورہی ہے تو صرف اسی وجہ سے ہم نے اس موضوع کو اجاگر کیا ہے۔ “
بقول شرمین ”میرے لئے ایسی عورت کو تلاش کرنا بہت مشکل تھا جو غیرت کے نام جھوٹی روایات کا پرنشانہ بنی ہو۔کیوں کہ خواتین خوف کے مارے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو بھی بیان نہیں کر پاتیں۔ نہ اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں اور نہ ہی اپنے اوپر گزرے واقعات کو سامنے لانا چاہتی ہیں۔صبا میری فلم کی’ہیروئن‘ ہی نہیں، ’ہیرو‘ ہے۔ اسی کے حوصلے اور ہمت کے سبب میں اس فلم کو آپ سب کے سامنے لاسکی۔‘‘
شرمین نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواتین کو نشانہ بنائے جانے کے ہر سال تقریباً ایک ہزار کیسز سامنے آتے ہیں۔ یہ رپورٹ ہونے والے کیسز کا تخمینہ ہے جبکہ درجنوں کیس خواتین کے خوف کے باعث کبھی بھی اور کہیں بھی رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔“
ان کا کہنا تھا کہ”مذہب اسلام عورت کو نکاح کرنے اور طلاق لینے کا حق دیتا ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کو جائز قرار دے دیا جائے۔“
شرمین کا کہنا تھا کہ ’’مسئلے کا ایک سنگین پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے مجرموں کو معافی مل جاتی ہے جس سے دوسرے لوگوں میں جرائم کرنے کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ میں میری فلم کی ہیروئن ’صبا‘ کو تو نئی زندگی مل گئی، میں چاہتی ہوں اب کسی اور صبا کو غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔ صبا اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گزرار رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا ہے۔“
’آسکر ونر لیڈی‘ کا کہناتھا کہ وہ اپنی فلم ملک بھرکے اسکولز ،کالجزاور یونیورسٹیز میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، تاکہ عوام میں خاص کر خواتین میں ان کے حقوق سے متعلق آگاہی پیدا ہو۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’فلم کو پرائم منسٹر ہاوٴس میں پیش کیا جانا اور وزیر اعظم کا غیرت کے نام پر قتل کو غیرت قرار نہ دینا اس بات کا اظہار ہیں کہ مسائل حکومت کے کان تک پہنچتے ہیں۔ان پر بات ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک اپنے مسائل پر پردہ نہیں ڈالتے، بات کرتے اور حل تلاش کرتے ہیں۔میں نے بھی اپنی بساط برابر یہی کوشش کی ہے۔“