امریکی ٹی وی چینل ’ایچ بی او‘ پر نشر ہونے کے بعد شرمین عبید چنائے کی دستاویزی فلم ’اَ گرل ان دا ریور‘ اب امریکہ کے کچھ غیر سرکاری اداروں میں دکھائی جا رہی ہے۔ واشنگٹن کے تحقیقی ادارے، ’یونائٹد سٹیٹس انسٹیٹوٹ آف پیس‘ میں فلم کی نمائش کے بعد سوال و جواب کے دوران شرمین نے کہا کہ پاکستان میں لوگ اب بھی یہ نہیں سمجھتے کہ دستاویزی فلم کیا ہوتی ہے اور یہ کہ اس میں اداکار پیسے لے کر کام نہیں کرتے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر وہ کلپس ایک مرتبہ پھر گردش کر رہی ہیں جن میں شرمین کی پہلی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’سیونگ فیس‘ میں شامل ایک خاتون ان پر مالی امداد کے وعدے پورے نہ کرنے کا الزام لگا رہی ہیں۔ فلم کی نمائش کے بعد ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو میں شرمین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی فلم میں شامل افراد سے رقم سے متعلق کوئی وعدہ نہیں کرتیں۔ لیکن، وہ ان کا مخیر افراد اور اداروں سے رابطہ جوڑ دیتی ہیں جو ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’آ گرل ان دا ریور‘ کی مرکزی کردار صبا قیصر کو اسی طرح ایک پلاٹ عطیے میں ملا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور ڈونر بھی ان کی مدد کر رہا ہے۔
عام توقعات کے برعکس، آسکر ایوارڈ کے ساتھ کوئی انعامی رقم نہیں ملتی۔ تاہم، شرمین کا کہنا تھا کہ: ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ مجھے فلم بنانے کے لیئے کروڑوں ڈالر ملتے ہیں یا پھر آسکر ایوارڈ کے ساتھ کروڑوں ڈالر ملے ہوں گے۔ مجھے تو ایسا کچھ نہیں ملا۔‘‘
شرمین نے بتایا کہ ان کی ٹیم ہر اس شخص سے کیمرے پر اجازت لیتی ہے جسے وہ فلمانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے لیئے ان افراد کو اجازت نامہ کیمرے پر پڑھایا، سنایا اور سمجھایا جاتا ہے، پھر ان سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ انہیں کیا سمجھ آیا اور اس کے بعد وہ کیمرے پر اپنے منہ سے فلم بندی کی اجازت دیتے ہیں اور یہ اجازت نامہ اس زبان میں ہوتا ہے جو وہ شخص بول اور سمجھ سکتا ہے۔ شرمین کا کہنا تھا کہ ’’میں نے ماضی کے تلخ تجربات سے سیکھ کر یہ طریقہ اپنایا‘‘، اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی کردار بعد میں اجازت نہ دینے کا دعویٰ نہ کر سکے۔
شرمین نے کہا کہ وہ ایسے لوگوں کی کہانیاں سامنے لانا اپنا فرض سمجھتی ہیں جن کے پاس وہ آسائشیں اور سہولتیں نہیں جو خود انہیں بچپن سے میسر ہیں۔
مزید تفصیل کے لیے وڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے: