پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف دو روزہ دورۂ سعودی عرب پر ریاض میں موجود ہیں۔ مبصرین وزیرِ اعظم کے اس دورے کو ملک کو درپیش معاشی چیلنجز اور علاقائی صورتِ حال کے تناظر میں اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق سعودی عرب میں قیام کے دوران وزیراعظم شہباز شریف سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سمیت دیگر اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف ایک ایسے وقت میں سعودی عرب کا دورہ کررہے ہیں جب پاکستان کی معیشت مشکلات سے دور چار ہے اور پاکستان کو فوری طور پر زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر کرنے کے لیے مالی معاونت کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر نظر رکھنے والے پاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں سعودی عرب نے مشکل حالات میں ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔اب بھی پاکستان کو توقع ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات حل کرنے کے لیے تعاون کرےگا۔
پاکستانی معیشت کو سیلاب سے پہلے بھی ایک مشکل صورتِ حال کا سامنا تھا اور پاکستان میں رواں سال ہونے والے شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی صورتِ حال نہایت پیچیدہ ہو گئی ہے۔
پاکستان کا سیلاب کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
سعودی عرب کو پاکستان کا اہم شراکت دار سمجھا جاتا ہے اور ماضی میں سعودی عرب نے کئی مشکل مواقع پر پاکستان کی مدد کی ہے۔ سعودی عرب متعدد بار پاکستان کو مؤخر ادائیگیوں پر تیل فراہم کر چکا ہے ۔
رواں سال ستمبر میں پاکستان کے مرکزی اسٹیٹ بینک کے مطابق سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ نے تین ارب ڈالر ڈپازٹ کی میعاد میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی جس کی مدت پانچ دسمبر 2022 کو ختم ہو رہی تھی۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی کے برعکس سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کے لیے کسی نقد گرانٹ کی فراہمی کا امکان کم ہے۔
'سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے مدد کر سکتا ہے'
اقتصادی امور کے تجزیہ کار خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان کی مدد کر سکتا ہے پاکستان میں لگ بھگ 12 ارب ڈالر مالیت کی آئل ریفائنری قائم کرنے کے بارے میں دونوں ممالک مفاہمت کی یاداشت کی تجدید کر سکتے ہیں۔
یادر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران فروری 2019 میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان میں پیٹرو کیمیکل صنعت اور دیگر شعبوں میں لگ بھگ 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔
خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کے دورے کے دوران ان منصوبوں پر بھی پیش رفت ہو۔
خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اگرچہ فوری طور پر کیش کی ضرورت ہے لیکن ان کےبقول پاکستان کو سعودی عرب سے مالی معاونت حاصل کرنے کے بجائے اقتصادی شراکت داری بڑھانی چاہیے۔
'سعودی عرب کو بھی اپنے اقتصادی مفادات عزیز ہیں'
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشا د احمد خان کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی مدد کی لیکن اس وقت ان کےبقول صورتِ حال تبدیل ہورہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہر ملک کی طرح سعودی عرب بھی اپنے اقتصادی مفادات کو مدِنظر رکھتا ہے۔ اُن کے بقول ریاض اور نئی دہلی کے اقتصادی تعلقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ سعودی عرب سمیت بعض عرب ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی اچھے ہو رہے ہیں۔ لہذٰا ایسی صورتِ حال میں پاکستان کو سعودی عرب سے کسی بڑی امداد کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
انھوں نے کہا اگرچہ ماضی میں سعودی عرب کے پاکستان کے سیکیورٹی کے شعبوں میں قریبی تعلقات رہے لیکن پاکستان کے سابق سفارت کار نے کہا کہ اب صورت حال تبدیل ہو گئی اور سیکیورٹی معاملات میں سعودی عرب کا پاکستان پر انحصار کم ہوتا جا رہا ہے۔
شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ ریاض اوراسلام آباد پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر اتفاق کر سکتے ہیں۔ لیکن اُن کے بقول اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام ہو۔
'بھارت کے ساتھ تعلقات کے باوجود سعودی عرب پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتا'
سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے پائیدار سیکیورٹی تعلقات رہے ہیں اور خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے باوجود سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کے باوجود ریاض، اسلام آباد کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں سردمہری پیدا ہو گئی تھی جب پاکستان کا جھکاؤ ترکی ، ملائیشیا او ر ایران کی طرف نظر آیا۔ لیکن ان کےبقول اب تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت رواں برس سعودی عرب کے متعدد دورے کر چکی ہے۔ اپریل میں وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف کا سعودی عرب کا یہ دوسرا دورہ ہے۔