اب جب کہ مسلم لیگ نواز نے اپنے صدر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد احتجاج کا اعلان کیا ہے تو یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا شہباز شریف کی اداروں کے ساتھ مفاہمت کی سیاست ناکام ہو گئی ہے اور اب مسلم لیگ نواز، نواز شریف کی مزاحمتی سیاست کے بیانیے کو اپنائے گی؟
صحافی اور تجزیہ نگار وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ چھ جولائی کو جب نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف فیصلہ آیا، اسی وقت یہ بات طے پا گئی تھی کہ مسلم لیگ نواز کو اگر میدان سیاست میں رہنا ہے تو اسے میاں نواز شریف کے موقف کے ساتھ چلنا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک امید کی رمق تھی کہ انتخابات میں لوگوں کے ووٹ کے عمل کو دیکھ لیا جائے۔ لیکن جو کچھ پچیس جولائی کو ہوا ہے، اس پہ تاریخ کا فیصلہ بھی آئے گا۔ لیکن اپوزیشن بھی مشترکہ مشاورت سے سارے ملک سے انتخابی عمل کے متعلق رپورٹس پر مبنی ابھی وائٹ پیپر تیار کر رہی ہے۔
سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار امتیاز عالم بھی اسی رائے سے متفق نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی مصالحت کی سیاست ناکام ہو گئی ہے اور مسلم لیگ کو بہت نقصان ہو چکا ہے۔ اب یہی صورت موجود ہے کہ نواز شریف پھر سے اس کی قیادت سنبھالیں۔
امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ جب شہباز شریف ابھی وزیراعلیٰ تھے تو احد چیمہ کی گرفتاری سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ ان پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ ’’وہ جو پنجاب میں 54 کمپنیاں بنائی تھیں ان مین کوئی نہ کوئی تو گھٹالا، کوئی نہ کوئی تو گڑبڑ تھی ہی جس میں وہ بہت آسانی سے پکڑے جاتے تھے۔‘‘
شہباز شریف کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پچھلی بار جب الیکشن ہونے جا رہے تھے تو نواز شریف کو سزا سنا دی گئی۔ اب ضمنی انتخابات کے موقع پر انہیں پکڑ لیا گیا۔ یہ کوئی حسن اتفاق نہیں ہے بلکہ اس کی ٹائمنگ بہت زیادہ سیاسی اہمیت لئے ہوئے ہے۔
انہوں نے شہباز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو قوتین ان امور کے پیچھے تھیں، اس کا انہیں ادراک ہونا چاہئے تھا۔ اگر نہیں تھا تو یہ کس بات کی سیاست کر رہے تھے؟
لیکن معروف تجزیہ نگار اور سینئیر صحافی ہارون الرشید نے مختف رائے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’بات یہ ہے کہ مفاہمت کا جو بیانیہ تھا، جو موقف شہباز شریف نے اختیار کیا تھا، جن لوگوں سے وہ ملتے تھے، ان کا اعتماد غالباً ختم ہو گیا۔ تاثر یہ پیدا ہوا کہ یہ ایک چال ہے کہ جس میں ایک شخص نرم رویہ اختیار رکھتا ہے اور دوسرا آدمی سخت رویہ اختیار کرتا ہے۔‘‘
اس موقف سے امتیاز عالم نے اختلاف ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں ایسا نہیں سمجھتا۔ یہ گڈ کاپ، بیڈ کاپ کی چال نہیں تھی۔ یہ کوئی ڈرامہ نہیں تھا۔ یہ شہباز شریف کا اپنا ایک کردار ہے۔ یہ ابھی تک ضیا الحق کے زمانے کی فوج کے سائے اور دست شفقت میں سیاست کرنے کی روایت میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اصل جو تنازع پیدا ہوا نظام کے ساتھ، وہ تو نواز شریف کا تھا۔ اور ان کی کسی آرمی چیف کے ساتھ نہ بن سکی۔ اس میں نواز شریف کی کوئی بدمزاجی نہیں تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم جو کرنا چاہتا تھا اسے وہ کرنے نہیں دیا جا رہا تھا۔
اس بات پر کہ آیا احتجاجی سیاست اس وقت کامیاب ہو سکے گی، ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ ’’یہ بات کہ اپوزیشن کوئی احتجاجی تحریک چلائے گی، تو میرا خیال ہے کہ حالات اس کے لئے ابھی سازگار نہیں ہیں۔ ایک برس کے بعد عمران خان نے احتجاجی تحریک شروع کی تھی لیکن وہ ناکام ہو گئی تھی اور ان سے میں نے کہا بھی تھا کہ یہ نہیں کامیاب ہو سکتی۔ نئی حکومت کو لوگ مہلت دینے کے موڈ میں ہوتے ہیں۔ ابھی تو اس کا کوئی امکان نہیں ہے اور مجھے کوئی احتجاجی تحریک نظر بھی نہیں آتی۔‘‘
اس بات سے وجاہت مسعود بھی متفق نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کا عمل ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، اتنی جلدی کوئی احتجاجی تحریک شاید ابھی کامیاب نہ ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اپوزیشن اور حکومت کی مخاصمت کا معاملہ ہلکی آنچ پر رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ سلگتا رہتا ہے۔ تو یہ معاملات جاری رہیں گے۔ کبھی مہنگائی تو کبھی لوڈشیڈنگ یا کسی اور مسئلے پر یہ معاملات چلتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن حکومت کو ضرب لگانے کے موقع میں رہتی ہے مگر ابھی میرا نہیں خیال کہ پاکستان کے ووٹر اس موڈ میں ہیں کہ حکومت کے خلاف مکمل طور پر نکل آئیں۔