گرمیوں کی دوپہروں میں، نیم کی چھاوٴں میں، گھنے برگد کے نیچے، پیپل تلے یا گاوٴں کے پختہ، نیم پختہ مکانوں کے لمبے چوڑے صحنوں میں ۔۔۔
۔۔۔چوڑی چکلی سی چارپائیوں پر روئی کے تکیوں پر نیم دراز اور حقے کا ’مزہ‘ لیتے بزرگوں کے بہت سے چہرے آپ کی یادوں میں زندہ ہوں گے۔۔
۔۔ یا شاید کسی افسانے یا ٹی وی ڈرامے میں آپ نے انہیں ضرور دیکھا ہوگا ۔۔۔کیوں کہ یہی وہ جگہیں تھیں جہاں حقہ پیا جاتا تھا۔۔ مگر اب یہ ’وباء‘ دیہات سے اٹھ کر شہروں میں چلی آئی ہے۔
شہر بھی وہ جو ملک میں سب سے بڑا ہے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ پہلے’غریب‘ شوقیہ حقہ پیا کرتے تھے لیکن اب ’امیرزادے۔۔’شیشہ‘ یعنی ’ماڈرن حقہ‘ پیتے ہیں ۔۔اور وہ بھی ’شوقیہ‘۔
کراچی کا ڈاکٹر ضیاء الدین احمد روڈ ۔۔ دراصل ایسی شاہراہ ہے جس پر قریب ہی قریب دو فائیو اسٹار ہوٹلز قائم ہیں ۔ یہاں عام آدمی تو خیر تصور میں ہی آنے اور کھانے پینے کاسوچ سکتا ہے لیکن امیرزادوں کے لئے ان ہوٹلز کی لابیز بے روک ٹوک شیشہ پینے کا بہتر ’کیفے‘ ہیں۔
وی او اے نے ایک نوجوان سے پوچھا کہ وہ شیشہ کیوں پیتا ہے تو جواب ملا: ’تھکن اتارنے اور روٹین میں تبدیلی کے لئے‘۔ استفسار کیا کہ ’کیا یہ روٹین ہے؟‘ تو جواب آیا: ’ویک اینڈ پر تو ’مسٹ‘ ہے۔‘
کراچی کے جوانوں اور نوجوانوں کو نشے کی اس نئی وباٴ نے بہت تیزی سے اپنی گرفت میں لینا شروع کردیا ہے۔ تین تلوار کلفٹن اور کھڈا مارکیٹ ڈیفنس کے پوش علاقوں میں شیشہ کیفے اتنے عام ہوگئے ہیں کہ شام ہوتے ہی سارے کے سارے ریسٹورنٹس اور ہوٹلز شیشہ پینے والوں سے بھر جاتے ہیں۔
کھڈا مارکیٹ پر ہوٹلز ایک بڑے سے دائرے کی شکل میں گول طرز پر آباد ہیں۔ یہ ’دائرہ‘ ٹریفک کے لئے’ون وے‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ شام ہوتے ہی یہاں گاڑیوں کے قافلے آنے لگتے ہیں اور رات ہوتے ہوتے تمام ہوٹلز شیشے کے شوقین اور باہر کی سڑک ان شوقین افراد کی گاڑیوں سے بھرجاتی ہے۔ ویک اینڈ پر تو نصف شب کے بعد تک لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
نمائندے کی جانب سے مختلف علاقوں میں کئے گئے سروے کے بعد، کئی حیران کن باتیں سامنے آئیں جیسا کہ کھڈا مارکیٹ کے تقریباً ہر ہوٹل کے ملازم کا یہ خیال تھا کہ اب شیشہ آفر کئے بغیر کوئی ہوٹل نہیں چل سکتا۔ قانوناً کریمینل پروسیجر کوڈ، یعنی سی پی سی کی دفعات مجریہ 2012ء کے تحت شیشہ پینا جرم ہے۔ لیکن، ہر شخص نے اس قانون کو گویا دھویں میں اڑا رکھا ہے۔ جو جتنا ماڈرن ہے وہ اتنا ہی زیادہ شیشے کو پسند کرتا اور استعمال میں لاتا ہے۔
یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ جتنے بھی لوگ شیشہ پیتے ہیں وہ سب کے سب اس سے ہونے والے نقصانات سے بھی بخوبی واقف ہیں لیکن پھر بھی شیشہ نوشی کو ترک نہیں کرپاتے۔
کھڈا مارکیٹ اور کلفٹن کے علاوہ ’شیشہ کیفے‘ کا رواج شہر کے بہت سے دوسرے علاقوں تک پھیل گیا ہے۔ جیسے زمزمہ، گلستان جوہر، خیابان راحت، سی ویو، بوٹ بیسن، طارق روڈ، نارتھ ناظم آباد اور حسن اسکوائر۔ پولیس کیفیز کے خلاف کارروائی کرتی ہے، مگر بدعنوانی کے بل بوتے پر انہیں دوبارہ کھول لیا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ آج بہت سے سنیماہالز، چائے کی دکانوں، گیم زون اور کیرم اور ڈبو سینٹرز میں بھی شیشہ پیا اور پلایا جاتا ہے۔
شیشے پر پابندی کے حوالے سے ایک عجیب سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قانون سازی کے باوجود، شیشہ پینے پر تو پابندی لگ نہیں سکی تو کیوں نہ ان شیشہ کیفیز کو مشروط طور پر لائسنس جاری کردیئے جائیں۔ اس سے نوجوانوں کو ’تفریح‘ کے مواقع بھی میسر آجائیں گے اور سگریٹ کی طرح حکومت کو اس سے آمدنی بھی ہونے لگے گی۔
حکام کا موقف
شیشہ کیفے سے متعلق ’ایکسپریس ٹری بیون‘ بھی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کرچکا ہے، جس میں کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے کہا تھا کہ انتظامیہ شیشہ کیفوں پر چھاپے مارتی رہی ہے اور ان کیفیز کے خلاف ڈپٹی کمشنرز کی زیرنگرانی آپریشنز بھی ہوتے رہے ہیں جبکہ تمام کارروائی بلاامتیاز کی جارہی ہے اور قانون توڑنے والوں سے سختی سے نمٹاجائے گا۔
کمشنر کراچی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’تمام شیشہ کیفے مضر صحت نہیں‘۔
بقول کمشنر، ’کچھ شیشہ کیفے میں نوجوانوں کو اچھا ماحول اور سرگرمیاں میسر کی جارہی ہیں۔ ایسے شیشہ کیفوں کو بند نہیں کیا گیا۔ تاہم، صرف شیشہ کی فروخت کو غیرقانونی قراردیا جائے گا۔۔‘