بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں شہریت قانون کے خلاف احتجاج اور ہنگامہ آرائی میں گیارہ افراد کی ہلاکت کے بعد پولیس کمشنر کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ شہر میں آٹھ ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں اور چار تھانوں کی حدود میں ہنگامہ کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک ہیڈ کانسٹیبل اور لگ بھگ دو سو زخمیوں میں 56 پولیس اہلکار شامل ہیں۔
شہریت قانون کے خلاف احتجاج کئی ماہ سے جاری ہے۔ لیکن، ان میں حالیہ شدت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے موقع پر آئی ہے۔ صدر ٹرمپ پیر کو احمدآباد پہنچے تھے جس کے بعد نئی دلی میں شہریت قانون کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان سات گھنٹے تک جھڑپیں جاری رہیں۔
دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں ہنگامہ آرائی کا سلسلہ منگل کو دوبارہ شروع ہوا جہاں مشتعل افراد نے پتھراؤ کیا اور کم از کم دو گاڑیوں کو آگ لگادی۔ پولیس نے بتایا کہ اسے مختلف علاقوں سے شہریوں نے فون کرکے جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کی وارداتوں سے متعلق اطلاعات دی ہیں۔
پولیس ترجمان کے مطابق گوکل پوری، موج پور، بھجن پورہ اور کراوال نگر سے شہریوں کے فون موصول ہونے کے بعد ان علاقوں میں پولیس تعینات کردی گئی ہے اور اب حالات معمول پر ہیں۔ دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے تشدد کے واقعات کے بعد گیارہ ایف آئی آرز درج کی ہیں اور بیس سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا ہے۔
مرکزی وزارت داخلہ نے پولیس افسر ایسا ین شری واستو کو فوری طور پر نئی دلی کا نیا پولیس اسپیشل کمشنر مقرر کر دیا ہے، جبکہ ہنگامہ آرائی سے متاثر علاقوں میں دفعہ 144 کے تحت اجتماع پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ہنگامہ کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دینے کے بعد لوگ چھٹنا شروع ہوگئے اور صورتحال بہتر ہوگئی۔
دلی پولیس نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں تمام شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھنے میں تعاون کریں اور افواہوں پر کان نہ دھریں۔
مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے نجی ٹی وی چینلوں کو ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ نفرت اور تشدد کو ہوا دینے والا مواد نشر کرنے سے باز رہیں۔ تعلیمی بورڈ نے بدھ کو 10ویں اور 12ویں جماعت کے امتحانات ملتوی کر دیے ہیں۔