رسائی کے لنکس

جس دن میں نے کمیونسٹ پارٹی کے رکن اور مصنف سید سبط حسن کو دفن کیا


اس تصویر میں سبط حسن ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے دفتر کے باہر کھڑے ہیں۔ فائل فوٹو
اس تصویر میں سبط حسن ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے دفتر کے باہر کھڑے ہیں۔ فائل فوٹو

یہ 20 اپریل 1986 کی بات ہے ۔ میں اس وقت کراچی یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اور پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کراچی یونیورسٹی یونٹ کا صدر تھا۔

میں یونیورسٹی کی لابی میں کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) کا ایک رکن دوست میرے پاس آیا اور کہاکہ اردو کے نامور ترقی پسند دانشور، صحافی اور ادیب سید سبط حسن کا انتقال ہو گیا ہے ۔جو اپنی تصانیف موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا اور ماضی کے مزار کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔

میرے دوست نے مجھے بتایا کہ ہم سبط حسن کی تدفین میں جانا چاہتے ہیں، لیکن جماعت (اسلامی جمعیت طلبہ) یونیورسٹی کی بس نہیں دے رہی ۔

میں نے کہا کیوں وہ لوگ بس کیوں نہیں دے رہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ سبط حسن کو مرتد سمجھتے ہیں ۔لیکن میں نے انہیں کہا کہ ہم جنازے میں ضرور جائیں گے۔ دوست بس لے کر آئے اور ہم نے گلشن اقبال سے میت اٹھائی اور جلوس کی شکل میں اسے سخی حسن قبرستان لے گئے۔ مجھے بتایا گیا کہ سبط حسن کاجنازہ ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ وہ لاوارث ہیں۔

ہم نے پورے راستے اردو میں نعرے لگائے ’’ہم وارث ہیں ، ہم وارث ہیں ، ہم سبط حسن کے وارث ہیں‘‘ ۔لیکن میت جب قبر کے پاس رکھی گئی تو لوگ حیران پریشان تھے کہ اب انہیں قبر میں کون اتارے گا۔

میں قبر کے اندر گیا اور میت کا سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ ایک اور دوست نے مردے کو قبر میں اتارنے میں مدد کی ، اور اس طرح ہم نے اس عظیم ادیب اور مذہبی آزادی کی حمایت کرنے والے کو منوں مٹی تلے دفن کر دیا۔

سبط حسن کا انتقال دہلی، بھارت میں ہوا اور پھر ان کی میت کراچی لائی گئی۔

سبط حسن نے اپنے تحریری کیریئر کا آغاز صحافت سے کیا اور پیام، نیو لٹریچر اور نیشنل ہیرالڈ کے ساتھ کام کیا۔ جب بھارت سے ہجرت کی تو پہلے لاہور میں سکونت اختیار کی لیکن پھر کراچی آگئے۔

پاکستانی مطبوعات کے مطابق وہ 31 جولائی 1912 کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے علی گڑھ اسلامک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ جہاں انہوں نے علی سردار جعفری، اسرارالحق مجاز، خواجہ احمد عباس، اختر الایمان جیسی ممتاز دانشور اور ترقی پسند شخصیات سے تعلیم حاصل کی۔ اور اختر حسین رائے پوری جیسے لوگوں سے ملاقات کی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سید سجاد ظہیر کی قیادت میں اردو کی ترقی کے لیے کام کیا اور ان کی یہ تحریک بہت مقبول ہوئی۔

مجھے معلوم نہیں تھا کہ جب سبط حسن کا دہلی میں انتقال ہوا تو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے پولٹ بیورو کے رکن سجاد ظہیر کی بیٹی نور ظہیر بھی ان کے ساتھ کراچی آئی تھیں۔

مجھے حال ہی میں اس کا علم ہو ا ، اس لیے جب میں نے سبط حسن کی برسی پر کچھ لکھنا چاہا تو نور ظہیر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔

میں نے کراچی میں سابق صحافی اور آزاد تحقیق کار اسلم خواجہ کے ذریعے نور ظہیر سے رابطہ کیا جو اب لندن میں مقیم ہیں ۔

نور ظہیر نے سبط حسن کے ساتھ اپنی یادیں کچھ اس طرح شیئر کیں ۔

’’سبط حسن نے میری گود میں دم توڑا۔ میں اسپتال میں ان کے بستر کے پاس بیٹھی تھی اور تب کمیونسٹ پارٹی نے فیصلہ کیا کہ مجھے ان کی میت کے ساتھ کراچی جانا چاہیے‘‘۔

نور ظہیر کے مطابق سبط حسن 1948 میں پاکستان آگئے تھے ۔ پاکستان جانا ان کا اپنا فیصلہ نہیں تھا ۔ لیکن اس وقت پارٹی کو مسلمان کارکنوں کی اشد ضرورت تھی۔ سیکولر اور روشن خیال ہندو اورسکھ کارکن بھارت چلے گئے تھے ۔

نور صاحبہ کہتی ہیں کہ سبط حسن نے پاکستان میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا اور جیلوں میں زندگی کاٹتے رہے ۔ وہ دس سال لاہور میں رہے اور پھر کراچی چلے گئے۔ جب وہاں تھوڑی سی پریشانی ہوئی تو ضیاء الحق نے پارٹی پرپابندی لگا دی اور کمیونسٹ پارٹی کے تمام ارکان روپوش ہو گئے۔ بھارتی پارٹی کی قیادت سے ان کے رابطے ممکن نہ ہوسکے اور اس طرح ان کی پارٹی ختم ہو گئی۔

نور ظہیر یا د کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اپنے انتقال سے دو سال پہلے سبط حسن دہلی آئے تھے اور نور اور اس کے تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ تین دن رہے ۔ان میں دو ہندو خواتین شامل تھیں ۔

نور کا کہنا ہے کہ سبط حسن کہا کرتے تھے کہ میری یہاں چار بیٹیاں ہیں اور ایک کراچی میں ہے۔

سبط حسن نے اپنی سیاسی پارٹی کو بھی پاکستان منتقل کر دیا تھا کیونکہ ان کی اہلیہ اور ان کے پورے خاندان نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

ڈاکٹر توصیف احمد صحافت کے سابق پروفیسر اور کتاب ’’ میڈیا کرائسز ‘‘کے مصنف ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ سبط حسن کی ایک بیٹی ہے جو ابھی زندہ ہے لیکن بہت بیمار ہے۔ سبط حسن علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم رہے اور کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے رکن رہے۔ وہ ان چار لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے کیمونسٹ جماعت کو پاکستان منتقل کیا تھا۔

’’میرے خیال میں ان میں سے ایک نور ظہیر کے والد سجاد ظہیر تھے اور باقی دو نام مجھے بھول گئے ‘‘۔

ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ میں سبط صاحب کے لیکچرز اور کتابیں بڑی دلچسپی سے پڑھتا تھا اور میں نے اپنی تحقیق کے لیے ان کی ایک کتاب ’’ماضی کے مزار‘‘ سے بھی مدد لی۔

سبط حسن کی مشہور کتابوں میں ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلاب ایران اور ان جیسی بہت سی دیگر کتابیں شامل ہیں۔

توصیف احمد کہتے ہیں کہ ان کے کام سے اسکالرز اور دانشور بھی متاثر ہوئے ہیں۔ان کا ہفتہ وار رسالہ ’ لیل و نہار‘ بھی بہت مشہور تھا ۔

’’سبط صاحب کی رائے ہمیشہ واضح رہی ہے کیونکہ جب ایران میں انقلاب آیا تو کمیونسٹ پارٹی نے انقلاب کی حمایت کی لیکن صرف سبط حسن نے اس انقلاب کی مخالفت کی۔ اسی لیے انہوں نے اس پر ایک کتاب لکھی‘‘۔

ڈاکٹر توصیف کہتے ہیں کہ سبط حسن نے بطور مصنف چمپینزی سے لے کر انسانوں تک کا تصور پیش کیا ہے اور ترقی پسند ذہن بنانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ جیل میں ان کے مذہبی لوگوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات قائم ہوئے جن میں سے ایک ختم نبوت کے علمبردار اور احرار پارٹی کے رہنما عطا اللہ شاہ بخاری تھے۔

اسلم خواجہ ایک سابق صحافی اور آزاد ریسرچر ہیں،وہ کہتے ہیں کہ سبط حسن کو خطرات کا سامنا تھا ۔ لیکن انہوں نے ان خطرات کی پرواہ نہیں کی۔

میں نے کراچی سے تعلق رکھنے والے اپنے کچھ دوستوں سےرابطہ کیا جنہوں نے سبط حسن کی میت میرے ساتھ دفن کی تھی لیکن سندھی اخبار ’’عوامی آواز‘‘ کے مالک جبار خٹک اور جنازے میں شریک میرے یونیورسٹی کے دوست احمد حسین کو بھی یاد نہیں آیاکہ دوسرا شخص کون تھا ؟ بس مجھے اتنا یاد ہے ایک پشتون تھا۔

XS
SM
MD
LG