پاکستان کے صوبے سندھ میں ٹڈی دل کے حملے میں ضلع تھرپار کی تین تحصیلوں اور ضلع خیرپور کے بعض علاقوں میں کھڑی فصلوں کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔
محکمہ زراعت سندھ کی گاڑیاں علاقے میں اسپرے کر رہی ہیں لیکن تمام متاثرہ علاقوں میں فضائی اسپرے نہ ہونے کی وجہ سے ٹڈی دل کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔
ایک طرف ٹڈل دل فصیلیں اجاڑ رہا ہے اور پودوں اور درختوں کے پتوں سمیت سبزہ ہڑپ کر رہا ہے تو دوسری جانب لوگ مخصوص قسم کے جال بچھا کر ٹڈی کو جسے مقامی زبان میں ماکڑ کہا جاتا ہے، پکڑ کر ان کی کڑھائی اور روسٹ بنا کر کھا رہے ہیں۔
سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر سے متصل بھارتی ریاست راجھستان کے ساتھ سرحدی آبادیوں چھاچھرو، ڈاہلی اور نگر پارکر میں بھی ٹڈی دل نے سینکڑوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
حالیہ بارشوں کے بعد سندھ کا یہ صحرا سرسبز وادی کا منظر پیش کر رہا تھا جسے ٹڈی دل چاٹ کر ایک بار پھر بیابان اور اجاڑ میں تبدیل کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے تھرپارکر میں اب مال مویشیوں کے چارے کے لیے بھی مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔
تھرپارکر میں سیاحت کے فروغ کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذولفقار کھوسہ کہتے ہیں کہ ٹڈی دل سے لوگ سخت پریشان ہیں۔ لیکن حکومتی اداروں میں باہمی اختلافات کے باعث موثر فضائی اسپرے کا کام نہیں ہو سکا۔
ذوالفقار کھوسہ کہتے ہیں کہ کوٹ اور تھرپاکر کے تین اضلاع ماکٹر (ٹڈی دل) سے متاثر ہوئے ہیں۔ عمر کوٹ کی تین بستیوں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے، جہاں گزشتہ ایک ہفتے سے ٹڈی دل موجود ہے اور اسے ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہ فضا میں بادل کی طرح چھا جاتے ہیں۔
تھرپارکر کی تین تحصیلوں میں چھاچھرو، ڈاہلی اور نگر پار میں صورت حال زیادہ ابتر ہے۔ ملحقہ بھارتی علاقہ رن کچھ پر بھی ٹڈی دل کا حملہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تھرپار میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے سپرے نہ کیے جانے کی ذمہ داری صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے پر عائد کررہی ہیں، جس کی وجہ سے فصلوں کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے۔
نوکوٹ کے ایک سینئر صحافی ملک اسلام نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے چھاچھرو اور ڈاہلی پر ٹڈی دل کے غول در غول اتر رہے ہیں جو فصلوں کا صفایا کر رہے ہیں لیکن حکومت نے ان کے خاتمے کے لئے موثر کاروائی نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی روز سے ضلع عمر کوٹ میں ٹڈی دل بادلوں کی طرح چھا جاتے ہیں اور کھڑی فصلوں کا مکمل صفایا کر دیتے ہیں۔ وہ جس درخت پر بیٹھتے ہیں تو وہ ٹنڈ منڈ ہو جاتا ہے ۔ ضلعی انتظامیہ کی گاڑیاں اسپرے کر رہی ہیں، لیکن لاکھوں کی تعداد میں ٹڈی دل پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔
تھرپار سے حکمران جماعت کے رکن صوبائی اسمبلی سریندر واریسانی نے وائس آف آمریکہ کو بتایا کہ سندھ حکومت ٹڈی دل پر فضائی سپرے بھی کر رہی ہے، لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ ہے جس سے کنٹرول کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
سریندر وریسانی کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ٹڈی دل سوڈان سے آیا ہے۔ ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ان کی نسل بہت تیزی سے بڑھتی ہے۔ یہ چھاچھر اور دوسری جانب خیرپور میں بھی ہیں۔ سانگڑھ میں پہلی بار مغرب کی جانب سے آئے ہیں، یعنی بلوچستان اور ایران کی طرف سے۔ اس سے پہلے یہ راجھستان کے راستے آتے تھے۔ سندھ کا محکمہ زراعت اسپرے کر رہا ہے لیکن اگر کوئی ایک ماکڑ بھی بچ جاتا ہے تو اس کی نسل تیزی سے پھیلنے لگتی ہے۔‘‘
اس سال جون میں بھی راجھستان سے آنے والے ٹڈی دل نے سندھ کے اس صحرائی علاقے پر حملہ کیا تھا جس سے فصلوں کو کافی نقصان پہنچا تھا اور آج ایک بار پھر یہ علاقے ٹڈی دل کے نشانے پر ہیں، جہاں حالیہ بارشوں کے بعد کاشت کار اچھی فصل کی امید لگائے بیٹھے تھے کہ یہ آفت آن پڑی۔ کاشت کار حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن حکومتی اداروں کی جانب سے ابھی کوئی موثر منصوبہ بندی دکھائی نہیں دے رہی۔