پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین نے منگل کو قومی اسمبلی میں جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے سندھ میں گورنر عشرت العباد کے حکم سے ایک بار پھر صوبے میں بلدیاتی نظام کی بحالی پر حکومت پر کڑی تنقید کی اور اجلا س سے علامتی واک آؤٹ بھی کیا۔
اے این پی کی رکن قومی اسمبلی بشری گوہر کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت اپنے فیصلے کو واپس نہیں لے لیتی اُن کی جماعت ایوان میں احتجاج جاری رکھے گی کیوں کہ بقول عوامی نیشنل پارٹی بلدیاتی نظام کی بحالی کو سندھ کے عوام کی خواہشات کے منافی اقدام تصور کرتی ہے ۔
حکمران پیپلز پارٹی کے سندھ سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ ظفر علی شاہ نے بھی اس احتجاج میں اے این پی کا ساتھ دیا اور واک آؤٹ بھی کیا۔
اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے قوم پرست جماعتوں کے احتجاج پر حکومت کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ بالخصوص کراچی میں امن و امان کے قیام کے لیے تمام فریقین کو اعتماد میں لے کر چلنے کی اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ”کوئی بھی فرد جو سندھ میں رہتا ہے ہم اُس کی رائے کا احترام کرتے ہیں ۔ “
اُنھوں نے کہا کہ سندھ کے شہری اور دیہی آبادی کو حکومت اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے لیکن صوبے میں حالات کو گھمبیر بنانے کے حوالے سے اگر کوئی قوم پرست جماعت اپنے نظریے کو فروغ دینے کی کوشش کرے گی تو اُسے روکا جائے گا۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ حکومت صوبہ سندھ میں یکجہتی کی خواہاں ہے۔
حکمران پیپلز پارٹی نے نو جولائی کو سندھ میں بحال کیے جانے والے کمشنری نظام کو ختم کر کے گذشتہ اتوار کو دوبارہ بلدیاتی نظام نافذ کر دیا تھا جو کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا ایک بڑا مطالبہ تھا۔ حکومت کا موقف ہے کہ شہر میں امن وامان کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے یہ فیصلہ موثر ثابت ہو گا۔ لیکن ایم کیو ایم کے علاوہ سندھ کی تمام قوم پرست جماعتیں بلدیاتی نظام کی دوبارہ بحالی کی مخالفت کر رہی ہیں ۔
دریں اثناء کراچی میں امن وامان کے قیام کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی متاثرہ علاقوں میں کارروائی کے باوجود تشدد کے واقعات میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں رات دیر گئے ہونے والے واقعات میں پولیس نے مزید ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے ۔