رسائی کے لنکس

سنگاپور کے 'گارڈنز بائے دی بے' میں خاص کیا ہے؟


آپ نے دنیا کے مختلف پارکس کی سیر تو کی ہی ہو لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسے پارک کی سیر کرا رہے ہیں جسے اگر پھولوں، پودوں، درختوں اور نباتات کا شہر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔یہ پارک ہے سنگاپور کا مشہور ''گارڈنز بائی دی بے'' جہاں نشونما پاتی نباتات سنگاپور کی مقامی نہیں بلکہ بحیرۂ روم سےلے کر جنوبی افریقہ کے سوانا اور بنجر صحراؤں اور دنیا کے دیگر حصوں سے حاصل کی گئیں ہیں۔

یہاں مصنوعی ٹھنڈ ی معتدل آب و ہوا کے باعث پھول ہمیشہ کھلے دکھائی دیتے ہیں۔ فطرت کی خوب صورتی کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی غرض سے بنایا گیا فلاور ڈوم یعنی پھولوں کا گنبد کنزرویٹری شیشے کے سب سے بڑے گرین ہاؤس کا گنیز ورلڈ ریکارڈ رکھتا ہے۔

سیر و تفریح کے لیے سنگاپور جانے والوں کی وزٹ لسٹ میں یہ جدید میگا اسٹرکچر دیکھنا ضرور شامل رہتا ہےکیوں کہ یہ اپنی نوعیت کا باغبانی اور باغیچے کی فن کاری کا ایک نمونہ ہے، یہاں آنے والوں پرحیرت کا جیسے ایک نیا باب کھلتا ہے۔

''گارڈنز بائی دی بے'' کو دنیا کا جدید نباتاتی باغ بنانے اور اس کی تر و تازہ رکھنے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی ماہرین کی ایک کثیر الشعبہ ٹیم کام کر رہی ہے، جس میں تزئین کے ماہر ڈیزائنرز، باغبان، انجینئرز پودوں کی صحت، باغ اور ٹرف کے ساتھ پودوں کی تحقیق اور آرکڈکی افزائش کا انتظام سنبھالتے ہیں۔

باغ کی سیر کو آنے والوں کو بہترین تجربہ دینے کے لیے ورچوئل سیر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

جیسے ہی کوئی سیاح یہاں کی سیر کا ارادہ کرکے آن لائن ٹکٹ خریدتا ہے تو انہیں کنگ فشرز ویٹ لینڈ ٹوور ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، جو گارڈنز بائی دی بے میں داخل ہونے سے لے کر باہر نکلنے تک سیاح کو اس مقام کے بارے میں معلومات دے گی جہاں وہ سیر کے دوران قدم رکھے گا۔

''گارڈنز بائی دی بے'' جنوری 2006 میں ایک بین الاقوامی ماسٹر پلان ڈیزائن کے مقابلے کے بعد وجود میں آیا۔24 سے زائد ممالک کی174 کمپنیز نے اپنے ڈیزائن جمع کرائے جس میں سے دو برطانوی کمپنیز کے ڈیزائن کو منظوری ملی اور یوں یہ گارڈن سٹی تشکیل پایا۔

اس پارک کے فلاور ڈوم میں گھومتے ہوئے آپ ہلکی سی ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں، یہاں ایک خاص کوٹنگ کے ساتھ شیشے لگائے گئے ہیں جو پودوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روشنی جذب کرتے ہیں، لیکن یہ کافی حد تک گرمی کو کم کرتے ہیں۔ چھت پر سینسر سے چلنے والی ریٹریکٹ ایبل سیل لگائی گئی ہے جو بہت زیادہ گرم ہونے پر پودوں کو سایہ فراہم کرتی ہے۔اس کے علاوہ زیادہ لوگوں کی موجودگی کی صورتِ میں زمینی ٹھنڈک برقرار رکھنے کا انتظام بھی اس پارک میں موجود ہے۔

گارڈنز بائی دی بے میں فلاور ڈوم کے علاوہ ڈریگن فلائی اور کنگ فشر جھیلیں بھی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔جھیل کے نظام کو 'مرینا ریزروائر کی توسیع کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔باغات کے اندر سے پانی کا باؤ جھیل کے نظام کےذریعے قابو میں رکھا جاتا ہے۔ پانی کو آبی پودوں کے ذریعے آبی ذخائر میں خارج کرنے سے قبل صاف کیا جاتا ہے اور پھر اسے آبپاشی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

آبی پودوں کے تنوع، پانی کی گردش اور ہوا کے ذریعے مچھلی اور ڈریگن فلائی کے لیے رہائش گاہیں بھی بنائی گئی ہیں جو مچھروں کی افزائش جیسے ممکنہ مسائل سے روکتی ہیں، کنگ فشر ویٹ لینڈز میں 200 سے زیادہ مینگروزز کے درخت اور پودے مل سکتے ہیں۔

گارڈنز بائے دی بے کے جدید نظام کو سمجھنے کے لیے دنیا بھر سے ماہر نباتات اور ماہرِ ماحولیات یہاں کا رخ کرتے ہیں تاکہ اپنے ممالک میں جاکر اس نظام کر متعارف کرانے کی کوشش کرسکیں۔

یہاں آنے والوں کو 11سپر ٹریز بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو بظاہر ایک لمبے ٹاور پر اگی پودوں کی شاخیں ہیں لیکن یہ بھی ہمارے ماحول کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں آئے زیادہ تر سیاح اس پارک کی خوب صورتی میں میں گم ہو جاتے ہیں۔جنہیں پارک میں تصاویر بنانے کے لیے دلکش مناظر دستیاب رہتے ہیں۔

ان سب کے ساتھ نباتاتی ایکو سسٹم کی معلومات میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ باغ سونے پر سہاگے کا کام کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG