معروف گلوکارہ، غزل گائیک اور 'وطن کی مٹی گواہ رہنا' جیسا مقبول ملی نغمہ گانے والی نیرہ نور 71 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئیں۔ نیرہ نورکو ان کی سریلی آواز کی وجہ سے 'بلبلِ پاکستان' بھی کہا جاتا تھا۔
نیرہ نور طویل عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں۔ 21 اگست کی رات کو اسی مرض کے سبب زندگی کی بازی ہار گئیں۔ ان کا شمار پاکستان کی صف اول کی گلوکاراؤں میں ہوتا تھا، جنہوں نے ٹی وی، ریڈیو، فلم اور غزل کی گائیکی میں خوب نام کمایا۔ 1970 کی دہائی سے لے کر 2012 تک گائے ان کے گیت ہمیشہ مقبول رہے۔
انہوں نے 1970 اور 1980 کی مقبول فلموں میں اپنی آواز کا جادو تو جگایا البتہ ٹی وی پر اپنی گائیکی کو 2012 تک جاری رکھا، جس کے بعد انہوں نے موسیقی سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔نیرہ نور کو موسیقی کے شعبے میں خدمات کے صلے میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سمیت کئی ملکی و غیر ملکی اعزازات سے نوازا گیا، جس میں پاکستانی فلموں کا سب سے بڑا ’ نگار‘ ایوارڈ بھی شامل ہے۔
نیرہ نور کے انتقال کی تصدیق ان کے بھتیجے اور ٹی وی اینکر رضا زیدی نےسوشل میڈیا پوسٹ کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'بلبلِ پاکستان‘ کے نام سے پہچانی جانے والی نیرہ نور اب ہم میں نہیں رہیں۔
پلے بیک گلوکاری
نیرہ نور تین نومبر 1950 کو بھارت کی ریاست آسام کے شہر گوہاٹی میں پیدا ہوئیں اور آٹھ سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آئیں۔ان کے والد کاروبار کی وجہ سے بھارت میں ہی رک گئے تھے اور ان کا انتقال بھی وہیں ہوا۔
نیرہ نور میں گلوکاری کا شوق معروف گائیک بیگم اختر کی غزل اور ٹھمری جب کہ بھارت میں ریڈیو اور مذہبی رسومات میں بھجن سن کر پیدا ہوا، جسے انہوں نے ہجرت کے بعد کالج کے زمانے میں جاری رکھا۔
سن 1968 میں ان کے فن کو ان کے کالج کے پروفیسر نے نہ صرف آگے بڑھانے میں ان کی مدد کی بلکہ انہیں ریڈیو پاکستان لاہور تک پہنچانے میں کردار ادا کیا۔ آغاز میں تو وہ شوقیہ گلوکاری کرتی رہیں البتہ جب انہیں فلموں میں پلے بیک سنگر بننے کی پیشکش ہوئی، تو اسے انہوں نے رد نہیں کیا۔
وہ اگلے 15 برس تک فلموں میں صف اول کی گلوکارہ رہیں۔ اس زمانے میں ملکہ ترنم نور جہاں، مالا بیگم اور رونا لیلیٰ مقبول پلے بیک سنگرز تھیں، جب کہ ناہید اختر اور مہناز نے ا ن کے بعد فیلڈ میں قدم رکھا۔ ایسی گلوکاراؤں کی موجودگی میں انہوں نے اپنا الگ مقام برقرار رکھا۔
انہوں نے 1970 اور 1980 کی دہائی میں بننے والی کئی مقبول فلموں جیسے آس، گھرانہ، بھول، دو بدن، شرافت، دو ساتھی، آئینہ، بندش اور آہٹ میں انہوں نے گلوکاری کی۔ان کی آواز میں سب سے زیادہ فلمی گیت اداکارہ شبنم پر فلمائے گئے جب کہ دیگر اداکاراؤں زیبا بیگم، سنگیتا، بابرا، ممتاز اور نشو نے بھی ان کے گانوں پر فن کا مظاہرہ کیا۔
فلم 'آس' کا گیت 'بول ری گڑیا بول ذرا' ہو یا 'گھرانہ' کا گانا 'تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا’، 'دو بدن' میں گایا دوگانا 'بجاؤ بجاؤ مرے سنگ تالی' ہو یا 'آئینہ' کا 'مجھے دل سے نہ بھلانا'، فلم 'بندش' کا مشہور گانا 'اچھا اچھا لاگورے' ہو یا ' پہلے آہٹ' اور پھر 'آوارگی' میں استعمال ہونے والا'چمن چمن کلی کلی'، ان کی آواز نے ان گانوں کو یادگار بنایا۔
احمد رشدی ہوں یا اخلاق احمد، مہدی حسن ہوں یا اے نیئر، نیرہ نور نے اپنے فلمی کیریئر کے دوران اپنے زمانے کے تمام صف اول کے گلوکاروں کے ساتھ پرفارم بھی کیا اور داد بھی سمیٹی۔
ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ 1970 اور 1980 کی دہائی کے تمام ہی بڑے موسیقاروں نے ان کے لیے گانے ترتیب دیے، جن میں روبن گھوش، نثار بزمی، سہیل رعنا، خلیل احمد، ناشاد، ایم اشرف اور کمال احمد قابلِ ذکر ہیں۔
فلموں میں مصروف ہونے کے باوجود نیرہ نور نے ٹی وی نہیں چھوڑا
نیرہ نور نے فلموں میں کامیاب ہونے کے باوجود ٹی وی کا دامن نہیں چھوڑا اور1970 کی دہائی سے ان کا اس میڈیم سے جو رشتہ قائم ہوا، وہ 2012 تک جاری رہا۔
اس دوران انہوں نے نہ صرف ٹی وی کے لیے کئی غزلیں، ملی نغمے اور گیت ریکارڈ کیے بلکہ ٹی وی ڈراموں کے سب سے زیادہ مقبول اوریجنل ساؤنڈ ٹریک (او ایس ٹی) ان ہی کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔مشہور ٹی وی ڈرامہ ’تیسرا کنارہ‘ ہو، 'دھوپ کنارے'، 'چاند گرہن‘ یا ''پڑوسی'، نیرہ نور کی آواز کو ڈرامے اور او ایس ٹی دونوں کی کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا تھا۔ان کا آخری مقبول او ایس ٹی 1990 کی دہائی کے آخر میں نشر ہونے ڈرامے 'زیب النساء' کا تھا۔
نیرہ نور نے اپنے کیریئر کے دوران کئی ٹی وی پروگراموں میں گانے گائے جب کہ ان کے کئی آڈیو البم بھی ریلیز ہوئے جن میں 'میری پسند' آج بھی مقبول ہے۔پی ٹی وی کے پروگرام 'سخن ور' میں ان کی آواز میں بہزاد لکھنوی کی غزل ’اے جذبہ دل گر میں چاہوں‘ کافی مقبول ہوئی۔ جسے ارشد محمود نے کمپوز کیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے ناصر کاظمی، احمد فراز اور ابن انشا جیسے مقبول شعراء کا کلام بھی گایا البتہ جس انداز میں انہوں نے فیض احمد فیض کو پڑھا، اس کو بے مثال قرار دیا جاتا ہے۔
ان کی مشہور غزلوں میں 'وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا'، 'تم یاد آئے'، 'اے عشق ہمیں برباد نہ کر'، 'کبھی ہم بھی خوبصورت تھے'، اور 'جلی تو جلاؤ گوری' قابل ذکر ہیں۔
'وطن کی مٹی گواہ رہنا'
ویسے تو انہوں نے فلم 'فرض اور مامتا' کے لیے اپناپہلا ملی نغمہ 'اس پرچم کے سائے تلے' گایا تھا البتہ ان کا ملی نغمہ 'وطن کی مٹی گواہ رہنا' آج بھی زبان زدِ عام ہے۔
موسیقار خلیل احمدکا کمپوز کیا ہوا یہ گیت پاکستان کے بہترین ملی نغموں کی ہر فہرست میں شامل ہوتا ہے، جسے نیرہ نور کی خوبصورت آواز نے سدا بہار بنادیا۔
ان کا ایک اور ملی نغمہ 'جو نام وہی پہچان' بھی سہیل رعنا نے کمپوز کیا اور جسے پی ٹی وی پر آج بھی یوم آزادی کے دنوں میں چلایا جاتا ہے۔
بلبلِ پاکستان کی وفات پر مداح افسردہ
نیرہ نور کے انتقال پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے سوشل میڈیا کےذریعے افسوس کا اظہار کیا۔
معروف اداکار عمران عباس نے سوشل میڈیا پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلبلِ پاکستان اب ہم میں نہیں، نیرہ نور کی سریلی آواز میں گائے ہوئے گیت ہمیشہ سننے والوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
معروف صحافی روف کلاسرا نے بھی نیرہ نور کے انتقال پر سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے خاندان والوں سے تعزیت کی۔
صحافی رضا رومی کے بقول نیرہ نور ایک انتہائی باصلاحیت گلوکارہ تھیں، جن کے گانے سن کر ان جیسے کئی لوگ بڑے ہوئے۔
صحافی فرخ پتافی نے بھی ان کی وفات کو ایک سانحہ قرار دیا۔
معروف ٹی وی اینکر ریحام خان نے بھی سوشل میڈیا پر کہا کہ انہوں نے بچپن میں نیرہ نور کی جیسی گلوکاری کرنے کی کوشش کی تھی۔
صرف پاکستان میں ہی نہیں، بھارت میں ان کے مداحوں نے ان کی وفات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
بھارتی صحافی راہول رنجن نے ان کے گائے ہوئے انقلابی نغمات کو یاد کرتے ہوئے ان کا مقبول گیت 'آج بازارمیں پاباجولا چلو' شیئر کیا۔