سر وِنسٹن چرچل کے اہل خانہ نے اُن سے درخواست کی تھی کہ وہ اسلام قبول کرنے کی اپنی خواہش پوری نہ کریں۔ یہ بات اُس خط میں درج ہے، جس کا حال ہی میں انکشاف ہوا ہے۔
اخبار ’دِی انڈپنڈنٹ‘ کی ایک خبر کے مطابق، آگے چل کر چرچل کی بھابھی بننے والی خاتون نے اگست 1907ء میں ایک خط تحریر کیا تھا، جس میں اُنھوں نے لکھا تھا: ’برائے کرم، آپ اسلام قبول نہ کریں۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ آپ کے اندر یہ خواہش موجزن ہے کہ آپ مشرقی انداز، پاشا کی طرح کا انداز، پسند کرتے ہیں، جو احساس مجھ میں بھی ہے‘۔
لیڈی گوینڈولین برٹی کی کچھ ہی دِنوں بعد، چرچل کے بھائی، جیک سے شادی ہونا طے تھی۔ برٹی کے بقول، اگر آپ اسلام سے تعلق جوڑ لیتے ہیں، تو مذہب کی تبدیلی کے باعث مزید تبدیلی آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی، جس کے بارے میں آپ نے سوچا ہی ہوگا۔ اپنے خون کے تقاضے دیکھیں، کیا آپ نہیں سمجھتے جو میں کہہ رہی ہوں، رشتے ناطوں سے دور نہ جائیں‘۔
اُن کا یہ خط کیمبرج یونیورسٹی کے ایک تاریخ داں، وارن ڈوکٹر کے ہاتھ اُس وقت لگا جب وہ اپنی کتاب ’وِنسٹن چرچل اینڈ دِی اسلامک ورلڈ: اورینٹلزم، امپائر اینڈ ڈپلومیسی اِن دی مڈل ایسٹ‘ کے لیے تحقیق کر رہے تھے۔
ڈوکٹر نے اخبار کو بتایا کہ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم اسلام اور مشرقی ثقافت میں خاص دلچسپی لیتے تھے، ’لیکن، سنجیدگی سے اُنھوں نے کبھی مذہب تبدیل کرنے کا نہیں سوچا‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’اُس وقت تک وہ کم و بیش ایک لادین شخص تھے۔ تاہم، وہ اسلامی ثقافت میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے، جو کہ وکٹورینز کے سلسلے میں عام سی بات تھی‘۔
سوڈان میں فوجی خدمات بجا لاتے ہوئے، چرچل کا اسلامی ثقافت سے واسطہ پڑا، اور وہ اُس سے کافی متاثر تھے۔
تحقیق کار نےاس خط کے پیچھے ممکنہ محرک کی طرف توجہ دلائی، اور یہ کہ چرچل کے قریبی حلقے کو کوئی ایسی پریشانی لاحق نہیں تھی۔ وہ اس ثقافت کے ایک بہت مداح تھے۔ تاہم ، اسلامی معاشرے کے بارے میں اُن کے خیالات بہت ناقدانہ تھے۔
سنہ 1899میں، سوڈن کے بارےمیں اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے، چرچل نے تحریر کیا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ قانونِ محمدی میں بحیثیت ملکیت، ہر خاتون کا کسی مرد سے تعلق لازم ہے، چاہے بچی کی حیثیت سے، بیوی کے طور پر، لونڈی کی حیثیت سے۔ اور، اُس وقت تک یہ غلامی ختم نہیں ہوگی، جب تک مرد یہ سمجھتا رہے گا کہ مذہب اسلام میں اعتقاد کی رو سے، مرد ذات طاقت ور ترین ہے‘۔