پنجاب کے شہر گجرات میں رشتے کے تنازعے پر اسپین کی شہریت رکھنے والی پاکستانی نژاد دو بہنوں کے قتل کے الزام میں ان کے بھائی اور چچا سمیت چھ ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) گجرات عطاء الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ملزمان نے جرم کی منصوبہ بندی اور قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔
ڈی پی او کے مطابق دونوں بہنیں خاندان میں اپنی زبردستی کی گئی شادیوں کے خلاف تھیں جس پر مبینہ طور پر اُن کے بھائی، چچا، شوہروں نے اہل خانہ کے ساتھ مل کر ان کو قتل کیا۔
انہوں نے بتایا کہ گرفتار ملزمان میں مرکزی کردار لڑکیوں کے چچا راجہ حنیف اور حقیقی بھائی شہریار کے ساتھ ساتھ دونوں کے شوہر عتیق الرحمٰن اور حسن کا ہے۔
مقتول لڑکیوں کی والدہ چشم دید گواہ
پولیس کے مطابق لڑکیوں کی والدہ اس اندوہناک واقعے کی چشم دید گواہ ہیں جنہیں پولیس نے حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ لڑکیوں کی والدہ کو پولیس نے مقدمے کا مدعی بننے پر قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ صدمے سے نڈھال ہیں جس کے بعد پولیس نے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے۔
ایس ایچ او تھانہ گلیانہ شیراز شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عذرا بی بی واقعے کے بعد سے خوف زدہ ہیں تاہم انہوں نے پولیس کو ابتدائی بیان بھی دیا ہے جوکہ مقدمے کا حصہ بنایا گیا ہے۔
عذرا بی بی کا پولیس کو دیے گئے بیان میں کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ دونوں لڑکے پڑھے لکھے ہیں، ان کا کسی بری صحبت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
خاتون کے مطابق ان کی بیٹیاں نکاح ہونے کے باوجود رخصتی اور لڑکوں کو اسپین بلانے کے لیے راضی نہیں تھیں۔اس لیے ان کے دیور محمد حنیف عرف باوا گوگا نے ان سے کہا کہ بیٹیوں کو ایک بار پاکستان بلا لیں وہ ان کو منا لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے ان کے ساتھ ظلم کیا ہے۔
پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق لڑکیوں کی والدہ کے مسلسل انکار پر اچانک جھگڑا شروع ہوا اور آٹھ سے 10 افراد نے دونوں لڑکیوں پر تشدد شروع کردیا۔وہ اپنی بیٹیوں کو بچانے کی کوشش کرتی رہیں۔ اس دوران کسی نے ان کو گھسیٹ کر کمرے میں بند کردیا اور باہر سے کنڈی لگا دی۔انہوں نے اپنی بیٹیوں کی چیخیں سنیں جوکہ آہستہ آہستہ ختم ہوگئیں۔ بعد میں ان کوپستول سے گولیاں مارنے کی آواز آئی۔شاید وہ گولیاں لگنے سے پہلے ہی مر چکی تھیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ دونوں بہنوں کے قتل کے بعد کوئی بھی مدعی بننے کے لیے تیار نہیں تھا جس پر پولیس کو سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنا پڑا۔
مقدمے کے مدعی پولیس کے تھانہ گلیانہ کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) یاسر ندیم ہیں ۔
مقدمہ میں کہا گیا کہ 22 سالہ عروج کی شادی حسن ولد اورنگزیب جب کہ 24 سالہ انیسہ کی شادی عتیق الرحمٰن سے ہوئی تھی۔ دونوں بہنوں کو دھوکے سے پاکستان بلایا گیا اور قتل کر دیا گیا۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ دونوں لڑکیوں کو گلے دبا کر بعد ازاں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا جب کہ ان پر بےدردی سے تشدد بھی کیا گیا۔
گاؤں والے کیا کہتے ہیں؟
گجرات کے قصبہ گلیانہ کے قریب گاؤں نوتھیہ لگ بھگ چھ سات ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔گاؤں کے رہائشی افراد اس موضوع پر میڈیا سے بات چیت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تاہم کچھ شہریوں نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مرکزی ملزم اور مقتول لڑکیوں کے چچا راجہ حنیف کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے اور وہ کونسلر بھی ہیں۔ لڑکیوں کے چچا کا قومی اسمبلی کے ایک رکن سے قریبی تعلق بھی بتایا جا رہا ہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے والد غلام عباس کئی برس قبل اسپین گئے تھے ۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بیٹیوں میں 24 سالہ انیسہ اور 22 سالہ عروج شامل ہیں۔ محمد عباس نے اپنے بہن بھائیوں کے اصرار پر دونوں بیٹیوں کا نکاح ایک سال قبل پاکستان میں کیا تھا۔ انہوں نے ایک بیٹی کا نکاح اپنے چھوٹے بھائی کے بیٹے اور دوسری بیٹی کا نکاح بہن کے بیٹے کے ساتھ کیا تھا۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ لڑکوں کے والدین شادی کے بعدان کو اسپین بھجوانے کے خواہش مند تھے۔ اس لیےانہوں نے پروگرام بنایا کے نکاح کے بعد سرکاری اداروں سے کاغذات بنوا کر اور نکاح کی ویڈیو و تصاویر وغیرہ اسپین بھیجی جائیں گی۔جب دونوں لڑکوں کے ویزے لگ جائیں تو ہی باقاعدہ شادی کی جائے گی اوران دونوں لڑکوں کو اسپین روانہ کر دیا جائے گا۔
گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ دونوں لڑکوں نے میٹرک بھی نہیں کیا۔ وہ گاؤں والوں کو یہی کہتے تھے کہ کچھ دن کی بات ہے وہ یورپ میں ہوں گے اور یورپ کی تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے گاؤں والوں کو بھیجیں گے۔دوسری طرف لڑکیوں نے والدین کے دباؤ پر آکر نکاح تو کرلیا البتہ اب ان پر اپنے شوہروں کی حقیقت عیاں ہوچکی تھی اور وہ ان کواپنے ساتھ اسپین لے جانے سے انکار کر رہی تھیں۔
علاقہ مکینوں کے مطابق جمعے کے روز سب لڑکیوں کو طے شدہ پروگرام کے مطابق ان کے چچا راجہ حنیف کے گھر لے جایا گیا جہاں رات گئے گھر سے چیخ و پکار کی آوازیں آئیں۔لڑکیوں نے چچا اور پھوپھی کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ وہ ان کے بیٹوں سے شادی نہیں کرنا چاہتیں اور اسی وجہ سے وہ ان کے ویزے اسپانسر نہیں کر رہیں۔ لڑکیوں کی یہ بات ان کے چچا راجہ حنیف اور ان دونوں لڑکوں سے، جن سے ان کا نکاح ہوا تھا، برداشت نہ ہوسکی اور انہوں نے ان لڑکیوں پر تشدد شروع کر دیا۔
دونوں لڑکیوں کے قتل کے حوالے سے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر دانش ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں عدم برداشت سرایت کر چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی بات ہی حرفِ آخر ہے۔ اگر یہ بات پوری نہ ہو تو وہ کسی کی جان تک لے سکتے ہیں ، اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔
قتل کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان لڑکیوں کا قتل لوگوں میں ملک سے باہر جانے کے جنون اور راتوں رات دولت مند بننے کی خواہش کا عکاس ہے۔
ماہرِ نفسیات کا مزید کہنا تھا کہ ایک دوسرے کو ترقی کرتا دیکھ کر ذہنی اور نفسیاتی امراض پیدا ہورہے ہیں جو کہ جرائم کی طرف لے جاتے ہیں۔