اجرام فلکی کو نام دینے کے لئے اتھارٹی مانی جانے والی تنظیم، انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین نے سیارے پلوٹو کا درجہ کم کر کے اسے ایک دوارف پلینٹ یعنی ایک بونا سیارہ یا صغیر سیارہ قرار دیا۔ یونین کے ارکان نے 2006 میں اُن خصوصيات پر رائے شماری کی جو کسی سیارے کو سیارہ بناتی ہیں۔
ان میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ ایک سیارہ اپنے مدار میں آنے والے تمام سیارچوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے یعنی اس کی اپنی بے پناہ کشش ثقل ہونی چاہیئے۔
چونکہ سیارہ نیپچون کی کشش سیارے پلوٹو پر اثر انداز ہوتی ہے، اور سورج کے گرد گردش کے دوران ان کے مدار دو بار ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں، اس لئے، یونین کے نئے معیاروں کی وجہ سے پلوٹو کو سیارہ نہیں کہا جا سکتا، اور اس کا درجہ کم کر کے اِسے ڈوارف پلینٹ یعنی بونے یا چھوٹے سیارے کا درجہ دیا گیا۔
تاہم چند سائنس دان یہ بھی کہتے ہیں کہ، اگر کسی سیارے کو یونین کی تعریف سے پرکھا جائے تو پھر ہمارا اپنا سیارہ زمین، بھی ایک بونا سیارہ ہے۔
یونیورسٹی آف سینٹرل فلوریڈا کے ایک ماہر فلکیات کے فلِپ میٹزگر نے، جو سائنس دانوں کی ایک ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں، یہ دعویٰ کیا ہے کہ پلوٹو کا درجہ کم کرنا درست نہیں ہے۔ سائنس دانوں کی ٹیم نے گزشتہ دو سو سال میں سیاروں پر لکھے جانے والے مسودوں کے جائزے کے بعد یہ کہا ہے کہ پلوٹو ایک مکمل سیارہ ہے۔
متعدد مسودات کی جانچ پرکھ کے بعد، انہوں نے کہا کہ سن 1802 کے صرف ایک مسودے میں کہا گیا ہے کہ کوئی سیارہ اس وقت سیارہ کہلائے گا جب اس میں اپنے مدار میں موجود سیارچوں اور شہاب ثاقب کو اپنی جانب کھینچ لینے کی قوت موجود ہو۔ تاہم بعد میں اسے ایک ثابت نہ کی جانے والی دلیل قرار دیا گیا تھا۔
ان سائنس دانوں نے حال ہی میں اپنی تحقیق کو آن لائن سائنسی جریدے اکارس میں شائع کرایا ہے۔
یونیورسٹی سے جاری ہونے والے ایک پریس ریلز میں، سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ، فلِپ میٹزگر کا کہنا ہے کہ یونین کی سیاروں کی تعریف کے مطابق، سیاروں سے متعلق سائنس کا بنیادی مقصد یہ ہے، کہ ایک سیارے کو ایک ایسی خصوصیت کی وجہ سے سیارہ قرار دیا جائے، جس کا تصور پہلے کسی تحقیق میں استعمال نہیں کیا گیا۔ اسی تعریف کی وجہ سے نظام شمسی کا دوسرا سب سے پیچیدہ اور دلچسپ سیارہ، سیارہ ہونے سے خارج ہو جائے گا۔
فلوریڈا یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کسی سیارے کو سیارہ بننے کے لئے، اس کے اپنے مدار میں اجرام فلکی کو اپنی جانب کھینچنے کی صفت کی بجائے اس کی اپنی بنیادی خصوصيات کا ہونا ضروری ہے۔