امریکی ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جاسوسی سے متعلق معلومات افشاں کرنے والے سابق ’کنٹریکٹر‘ نے کہا ہے کہ این ایس اے کی خفیہ دستاویزات کی روس یا چین کے پاس موجودگی کا ’’صفر فیصد امکان‘‘ ہے۔
اخبار نیو یارک ٹائمز میں جمعرات کو شائع ہونے والے انٹرویو میں ایڈورڈ اسنوڈن نے کہا کہ ایسی تمام دستاویزات جو اُن کے پاس موجود تھیں وہ اُنھوں نے ہانگ کانگ میں صحافیوں کے حوالے کر دی تھیں۔
اسنوڈن کا کہنا تھا کہ ماسکو فرار کے وقت اگر وہ یہ دستاویزات اپنے ساتھ رکھتے تو عوامی مفاد کو نقصان پہنچتا۔
اسنوڈن نے کہا کہ وہ چین کی انٹرنیٹ پر جوابی جاسوسی کی کارروائیوں سے بخوبی واقف ہیں، اور این ایس اے بھی جانتی ہے کہ اُنھوں نے خفیہ معلومات کو چینی جاسوسوں کے ہاتھ لگنے سے محفوظ رکھا۔
اسنوڈن نے رواں سال یہ معلومات افشاں کی تھیں کہ این ایس اے نے امریکی شہریوں کے رابطوں کا ریکارڈ بھی اکٹھا کیا۔
اسنوڈن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے معلومات افشاں کرنے کا فیصلہ این ایس اے کی ایک داخلی رپورٹ پڑھنے کے بعد کیا جس میں بش انتظامیہ کے دور میں عدالتی احکامات کی عدم موجودگی میں ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کو خفیہ طور پر ریکارڈ کرنے کا ذکر کیا گیا تھا۔
اُنھوں نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ اگر حکومت کے اعلیٰ ترین حکام قانون توڑنے کے باوجود سزا سے بچ نکلیں تو ’’خفیہ اختیارات انتہائی خطرناک ہو جاتے ہیں‘‘۔
این ایس اے کے خفیہ پروگرام کو افشاں کرنے کے بعد اسنوڈن پہلے ہانگ کانگ اور پھر روس فرار ہو گئے تھے۔ روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے اُن کو ایک سال کے لیے پناہ دینے کی منظوری دی۔ روسی اقدام پر امریکہ نے برہمی کا اظہار کیا کیوں کہ وہ اسنوڈن پر مقدمہ چلانا چاہتا ہے۔
اسنوڈن کی نیو یارک ٹائمز سے گفتگو پر این ایس اے نے ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے، لیکن ایجنسی نے جاسوسی سے متعلق اپنے پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کئی بڑے دہشت گرد حملوں کو ناکام بنانے میں مدد ملی۔
اخبار نیو یارک ٹائمز میں جمعرات کو شائع ہونے والے انٹرویو میں ایڈورڈ اسنوڈن نے کہا کہ ایسی تمام دستاویزات جو اُن کے پاس موجود تھیں وہ اُنھوں نے ہانگ کانگ میں صحافیوں کے حوالے کر دی تھیں۔
اسنوڈن کا کہنا تھا کہ ماسکو فرار کے وقت اگر وہ یہ دستاویزات اپنے ساتھ رکھتے تو عوامی مفاد کو نقصان پہنچتا۔
اسنوڈن نے کہا کہ وہ چین کی انٹرنیٹ پر جوابی جاسوسی کی کارروائیوں سے بخوبی واقف ہیں، اور این ایس اے بھی جانتی ہے کہ اُنھوں نے خفیہ معلومات کو چینی جاسوسوں کے ہاتھ لگنے سے محفوظ رکھا۔
اسنوڈن نے رواں سال یہ معلومات افشاں کی تھیں کہ این ایس اے نے امریکی شہریوں کے رابطوں کا ریکارڈ بھی اکٹھا کیا۔
اسنوڈن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے معلومات افشاں کرنے کا فیصلہ این ایس اے کی ایک داخلی رپورٹ پڑھنے کے بعد کیا جس میں بش انتظامیہ کے دور میں عدالتی احکامات کی عدم موجودگی میں ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کو خفیہ طور پر ریکارڈ کرنے کا ذکر کیا گیا تھا۔
اُنھوں نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ اگر حکومت کے اعلیٰ ترین حکام قانون توڑنے کے باوجود سزا سے بچ نکلیں تو ’’خفیہ اختیارات انتہائی خطرناک ہو جاتے ہیں‘‘۔
این ایس اے کے خفیہ پروگرام کو افشاں کرنے کے بعد اسنوڈن پہلے ہانگ کانگ اور پھر روس فرار ہو گئے تھے۔ روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے اُن کو ایک سال کے لیے پناہ دینے کی منظوری دی۔ روسی اقدام پر امریکہ نے برہمی کا اظہار کیا کیوں کہ وہ اسنوڈن پر مقدمہ چلانا چاہتا ہے۔
اسنوڈن کی نیو یارک ٹائمز سے گفتگو پر این ایس اے نے ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے، لیکن ایجنسی نے جاسوسی سے متعلق اپنے پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کئی بڑے دہشت گرد حملوں کو ناکام بنانے میں مدد ملی۔