رسائی کے لنکس

’گل بخاری کا اغوا خوف کا سبب بنا‘


گل بخاری (سوشل میڈیا فوٹو)
گل بخاری (سوشل میڈیا فوٹو)

گل بخاری پاکستان کی فوج کے بعض اقدامات کی بھی کڑی ناقد رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر کھل کر اپنی رائے ظاہر کرنے کے باعث مشہور ہیں۔

پاکستان اور برطانیہ کی دہری شہریت رکھنے والی صحافی اور انسانی حقوق پر کھل کر بات کرنے والی سرگرم کارکن گل بخاری کے مبینہ اغوا اور رہائی کے واقعے نے ملک میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں میں تشویش کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔

گل بخاری بدھ کی صبح لاہور میں اپنے گھر واپس تو پہنچ گئیں لیکن سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ انہیں کس نے اور کیوں اغوا کیا تھا اور اس کارروائی کا مقصد کیا تھا؟

گل بخاری کو منگل کی رات اُس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ نجی ٹیلی ویژن چینل 'وقت نیوز' جا رہی تھیں اور چند گھنٹوں بعد یہ خبر آئی کہ وہ گھر پہنچ گئی ہیں۔

گل بخاری پاکستان کی فوج کے بعض اقدامات کی بھی کڑی ناقد رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر کھل کر اپنی رائے ظاہر کرنے کے باعث مشہور ہیں۔

گو کہ پاکستانی فوج جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کرتی رہی ہے لیکن گل بخاری کے اغوا کے بعد سوشل میڈیا پر کئی نامور افراد اور صحافی فوج کی طرف ہی انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔

گل بخاری کے اغوا کے بعد سماجی میڈیا پر بحث شروع ہو گئی ہے اور مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔

ایک سماجی کارکن فرحان حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گل بخاری جس طرح غائب ہوئیں "وہ بے انتہا خوف کا سبب بنا ہے۔"

فرحان کہتے ہیں کہ ملک کے مسائل پر بات کرنے والوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ جو بھی شخص مختلف رائے رکھتا ہے کہ "اس کے لیے کوئی برداشت نہیں ہے۔"

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جو سماجی کارکن ہوتے ہیں اُنھیں ایسے ہی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کے بقول، "جو انسانی حقوق کا کام کرتے ہیں یا جو محروم طبقوں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اُنھی لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے۔"

ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ انسانی حقوق کی بیشتر خلاف ورزیاں "حکومت کے جو ادارے یا ایجنسیاں ہیں، اُن کی ہی طرف سے ہوتی ہیں۔"

اُنھوں نے کہا کہ سویلین حکومت کو اتنی کمزوری نہیں دکھانی چاہیے۔ "اگر اُن کا سکیورٹی کے اداروں پر کنٹرول نہیں ہے جو حکومت کے ماتحت ہونے چاہئیں تو یہ اُن کی کمزوری ہے۔"

واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ریاست کے اداروں کے خلاف اندرون اور بیرون ملک سے قائم سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس سے جو تنقید کی جاتی ہے اس پر نظر رکھی جا رہی ہے۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ریاست کے اداروں کے پاس سوشل میڈیا کو 'مانیٹر' کرنے کی صلاحیت ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔

پاکستان میں اس سے قبل بھی ایسے افراد کو زبردستی اغوا کیا جاتا رہا ہے جو سماجی میڈیا پر ’حساس‘ سمجھے جانے والی موضاعات پر بحث کرتے ہیں یا ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

گزشتہ سال جنوری میں اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف مقامات سے پانچ مختلف بلاگرز اور سماجی کارکنان اچانک لاپتا ہو گئے تھے جن کو بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔ اُن میں سے کم از کم دو بلاگرز بیرون ملک چلے گئے ہیں جہاں اُنھوں نے بعد میں دیے جانے والے بیانات میں دعویٰ کیا تھا کہ اُنھیں پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں ہی نے اغوا کیا تھا۔

پاکستان میں سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایسی جگہ ہے جہاں لوگ مختلف موضوعات پر اپنی رائے اظہار کر سکتے ہیں لیکن اب یہ گنجائش بھی "سکڑتی" جا رہی ہے۔

لاہور ہی میں منگل کی شب نقاب پوش افراد نے ایک صحافی اسد کھرل کی گاڑی کو روک کر اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا، جس کی صحافی برداری کی طرف سے مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بدھ کو صحافی اسد کھرل پر حملے کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ سے 24 گھنٹے میں رپورٹ طلب کی ہے۔

XS
SM
MD
LG