مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جاری حکومت مخالف احتجاجوں میں سماجی نیٹ ورکنگ ویب سائٹس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
تاہم، وائس آف امریکہ کے ایلکس وِلاریل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ میڈیا کے ماہرین کہتے ہیں کہ ’مظاہروں کے پیچھے افراد، نہ کہ تیکنالوجی کارفرما ہے‘۔
تیونس اور مصر میں احتجاجوں کو منظم کرنے والوں نےحمایتیوں کو متحرک کرنے کے لیےفیس بک اور ٹوٹر کا استعمال کیا۔
مصر میں فیس بک پیج ’ہم سب خالد سعید ہیں‘ نے فوری طور پر ہزاروں شائقین جمع کرلیے جِس کے اب تقریباً دس لاکھ شائقین ہیں۔ یہ پیج ایک نوجوان مصری کاروباری کے نام پر جاری کیا گیا، جِس نے مصری بغاوت کو جِلا بخشی اور جسے مبینہ طور پر گذشتہ سال پولیس نے مارپیٹ کرتقریباًٍ ہلاک دیا تھا۔
سیاسی تبدیلی کے حصول کے لیےاحتجاجیوں کی آن لائن کاوشوں نے سوشل میڈیا کی طاقت ثابت کی ہے۔
تاہم مصری صحافی اور بلاگر مونا الطالوی کا کہنا ہے کہ جو لوگ مشرقِ وسطیٰ کی تحاریک کو فیس بک یا ٹوٹر انقلاب کا نام دے رہے ہیں وہ حقداروں کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ فیس بک اور ٹوٹر نے ہمت ایجاد نہیں کی جب کہ ہمیں اِن حوصلہ مند لوگوں کے ہمت کی قدر کرنی چاہیئے۔
وہ کہتی ہیں کہ فیس بک نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کا کام ضرور کیا لیکن یہ ہمت کی بات ہے کہ لوگ سڑکوں پر نکل پڑیں اور حکومتوں کو گراڈالیں۔
الطالوی نے اِن خیالات کا اظہار منگل کے دِن واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرے میں کیا جس کا انتظام ’سینٹر فور انٹرنیشنل میڈیا اسس ٹینس‘ اور ’نیشنل اِنڈومینٹ فور ڈیموکریسی‘ نے کیا تھا۔
اِس موقعے پر،واشنگٹن میں’ الجزیرہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک ‘کے بیورو چیف ،عبد الرحیم فکارا نے بھی بات کی۔ اُنھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا نے احتجاجوں کے بارے میں معلومات دینے میں بہت بڑا کردار کیا۔ لیکن اُن کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے
کہ ویب سائٹس نے جمہوریت کی روح کو پھونکنے میں اپنے سے کوئی مدد کی ہوگی۔ اُن کے بقول دیگر میڈیا نےبھی اِس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔