واشنگٹن —
صومالیہ میں شدت پسندوں کی جانب سے گزشتہ روز کیے جانے والے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 30 ہوگئی ہے جب کہ جنگجو تنظیم 'الشباب' نے مزید حملوں کی دھمکی دی ہے۔
اتوار کو دارالحکومت موغادیشو میں مرکزی عدالت کے احاطے میں کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری بھی 'القاعدہ' سے منسلک تنظیم 'الشباب' نے قبول کرلی ہے۔
تنظیم کے ترجمان ابو مصعب نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے ساتھ فون پر گفتگو میں کہا کہ گزشتہ روز کے حملے نے 'کٹھ پتلی' حکومت کے خواب کرچی کرچی کردیے ہیں۔
ترجمان نے خبردار کیا کہ ان کے جنگجو دارالحکومت پر مزیدحملے کریں گے۔
اتوار کو ہونے والے حملوں کا آغاز ایک کار بم دھماکے سے ہوا تھا جس کے بعد کئی مسلح جنگجووں نے عدالتی احاطے میں داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی۔
حملہ آوروں میں سے کئی نے بعد ازاں اپنے جسم سے بندھی بارودی جیکٹیں دھماکے سے اڑادی تھیں۔
عدالت پر حملے کے دو گھنٹوں بعد موغادیشو کے ہوائی اڈے کے نزدیک بھی ایک کار بم دھماکہ ہوا تھا۔
صومالیہ کے وزیرِ اعظم عبدی فرح شیردون نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے حملے ملک میں امن و امان کے قیام کی حکومتی کوششوں کو سبوتاژ نہیں کرسکتے۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالت پر ہونے والے حملے میں کئی تربیت یافتہ غیر ملکی جنگجو بھی شریک تھے جس سے، ان کے بقول، ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ صرف صومالیہ کا داخلی معاملہ نہیں رہی۔
'الشباب' کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ اتوار کو کیے جانے والے حملے میں اس کے چھ جنگجو ہلاک ہوئے۔ حکام نے ہلاک ہونے والے حملہ آوروں کی تعداد نہیں بتائی ہے۔
حملے کے بعد صومالیہ میں تعینات افریقی یونین کے امن دستوں نے پیر کو علی الصباح موغادیشو کے کئی علاقوں کا محاصرہ کرکے گھر گھر تلاشی لی اور 'الشباب' سے تعلق کے شبہ میں کئی افراد کو حراست میں لیا۔
حملوں کے بعد صومالی اراکینِ پارلیمان نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ 'الشباب' دارالحکومت میں خود کو دوبارہ منظم کر رہی ہے اور حملوں سے تنظیم کی فعالیت کا اظہار ہوتا ہے۔
اتوار کو دارالحکومت موغادیشو میں مرکزی عدالت کے احاطے میں کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری بھی 'القاعدہ' سے منسلک تنظیم 'الشباب' نے قبول کرلی ہے۔
تنظیم کے ترجمان ابو مصعب نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے ساتھ فون پر گفتگو میں کہا کہ گزشتہ روز کے حملے نے 'کٹھ پتلی' حکومت کے خواب کرچی کرچی کردیے ہیں۔
ترجمان نے خبردار کیا کہ ان کے جنگجو دارالحکومت پر مزیدحملے کریں گے۔
اتوار کو ہونے والے حملوں کا آغاز ایک کار بم دھماکے سے ہوا تھا جس کے بعد کئی مسلح جنگجووں نے عدالتی احاطے میں داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی۔
حملہ آوروں میں سے کئی نے بعد ازاں اپنے جسم سے بندھی بارودی جیکٹیں دھماکے سے اڑادی تھیں۔
عدالت پر حملے کے دو گھنٹوں بعد موغادیشو کے ہوائی اڈے کے نزدیک بھی ایک کار بم دھماکہ ہوا تھا۔
صومالیہ کے وزیرِ اعظم عبدی فرح شیردون نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے حملے ملک میں امن و امان کے قیام کی حکومتی کوششوں کو سبوتاژ نہیں کرسکتے۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالت پر ہونے والے حملے میں کئی تربیت یافتہ غیر ملکی جنگجو بھی شریک تھے جس سے، ان کے بقول، ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ صرف صومالیہ کا داخلی معاملہ نہیں رہی۔
'الشباب' کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ اتوار کو کیے جانے والے حملے میں اس کے چھ جنگجو ہلاک ہوئے۔ حکام نے ہلاک ہونے والے حملہ آوروں کی تعداد نہیں بتائی ہے۔
حملے کے بعد صومالیہ میں تعینات افریقی یونین کے امن دستوں نے پیر کو علی الصباح موغادیشو کے کئی علاقوں کا محاصرہ کرکے گھر گھر تلاشی لی اور 'الشباب' سے تعلق کے شبہ میں کئی افراد کو حراست میں لیا۔
حملوں کے بعد صومالی اراکینِ پارلیمان نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ 'الشباب' دارالحکومت میں خود کو دوبارہ منظم کر رہی ہے اور حملوں سے تنظیم کی فعالیت کا اظہار ہوتا ہے۔