پناہ گزینوں کے عالمی ادارے نے کہاہے کہ منگل کے روز صومالیہ کے ساحل کے قریب پناہ گزینوں کو لے جانے والی ایک کشتی الٹنے سے تقریباً 55 افراد ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔
عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق خلیج عدن سے یمن جانے والی کشتی ، اپنا سفر شروع کرنے کے محض 15 منٹ کے بعد ہی الٹ گئی۔
پانچ نوجوان صومالی باشندوں نے ، جو کشتی ڈوبنے کے بعد تیر کر اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے، بتایا ہے کہ کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد کو لادا گیاتھا اور اس کا سفرصومالیہ کی شمالی بندرگاہ بوساسو سے شروع ہواتھا۔
اقوام متحدہ کا کہناہے کہ 23 نعشیں نکال لی گئی ہیں جب کہ 32 لاپتہ مسافروں کی تلاش جاری ہے۔
عالمی ادارے نے جمعرات کو بتایا کہ یہ حادثہ دولحاظ سے المناک ہے، اول یہ کہ قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور دوسرا یہ کہ حالات سے تنگ آئے ہوئےصومالی بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک چھوڑتے وقت شدید خطرات مول لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
امدادی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے بار بار خبردار کیے جانے کے باوجود اس سال بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے راستے ایک لاکھ کے لگ بھگ صومالی اپنا ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
امدادی تنظیموں کا کہناہے کہ سمندری سفر کے لیے غیر مناسب کشتیوں اور ان میں گنجائش سے زیادہ مسافر بھرنے کا خطرہ مول لینے کے ساتھ ساتھ صومالیہ سے فرار ہونے والے افراد اکثر اوقات انسانی اسمگلروں کے استصال کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔
عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق خلیج عدن سے یمن جانے والی کشتی ، اپنا سفر شروع کرنے کے محض 15 منٹ کے بعد ہی الٹ گئی۔
پانچ نوجوان صومالی باشندوں نے ، جو کشتی ڈوبنے کے بعد تیر کر اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے، بتایا ہے کہ کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد کو لادا گیاتھا اور اس کا سفرصومالیہ کی شمالی بندرگاہ بوساسو سے شروع ہواتھا۔
اقوام متحدہ کا کہناہے کہ 23 نعشیں نکال لی گئی ہیں جب کہ 32 لاپتہ مسافروں کی تلاش جاری ہے۔
عالمی ادارے نے جمعرات کو بتایا کہ یہ حادثہ دولحاظ سے المناک ہے، اول یہ کہ قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور دوسرا یہ کہ حالات سے تنگ آئے ہوئےصومالی بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک چھوڑتے وقت شدید خطرات مول لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
امدادی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے بار بار خبردار کیے جانے کے باوجود اس سال بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے راستے ایک لاکھ کے لگ بھگ صومالی اپنا ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
امدادی تنظیموں کا کہناہے کہ سمندری سفر کے لیے غیر مناسب کشتیوں اور ان میں گنجائش سے زیادہ مسافر بھرنے کا خطرہ مول لینے کے ساتھ ساتھ صومالیہ سے فرار ہونے والے افراد اکثر اوقات انسانی اسمگلروں کے استصال کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔