اقوامِ متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے سیاسی امور، Taye-Brook Zerihoun نے حال ہی میں کہا کہ صومالی قزاقوں کو روکنے کے لیے جو زبردست بین الاقوامی کوششیں کی جا رہی ہیں، ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ لیکن، انھوں نے کہا، کہ یہ کوششیں بھی ناکافی ہیں۔ انھوں نے کہ ایسے اقدامات پر زیادہ زور دیا جانا چاہیئے جن سے قزاقوں کو باز رکھا جا سکے، اور سیکورٹی، قانون کی حکمرانی اور اقتصادی ترقی کو فروغ ملے ۔
اٹلانٹک کونسل کے سینیئر فیلو مارٹن مرفی کہتے ہیں کہ یہ بیانات تو بڑے شاندار ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو عملی شکل دینے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے ۔’’میرا خیال ہے کہ فی الحال بین الاقوامی برادری کی بحری افواج نے حالات کو قابو میں رکھا ہوا ہے ۔ بلکہ مجھے حیرت ہے کہ موجودہ مون سون سیزن کے خاتمے کے بعد حملوں میں کوئی بڑا اضافہ نہیں ہوا ہے ۔ اس لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی صحیح کام کیا جا رہا ہے یا صومالیہ کی سرزمین پر کوئی چیز تبدیل ہو رہی ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز ہے۔‘‘
لیکن مرفی کہتے ہیں کہ اندیشہ یہی ہے کہ جب یورپی ملک اپنے گشت کرنے والے بحری جہاز واپس نکال لیں گے تو خلیج ِ عدن اور بحرِ ہند میں ہائی جیک کیے جانے والے جہازوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا ۔’’انہیں اور بہت سی چیزوں کے لیے وقت کی ضرورت ہے ۔ لیبیا میں بہت سے وسائل استعمال ہو ئے ہیں ۔ یورپی ملکوں پر مالی دباؤ ہے اور انہیں اپنے بحری بیڑوں میں کٹوتی کرنی پڑی ہے۔ وہ اپنے سرکاری بجٹ کم کر رہے ہیں۔ امریکہ میں بھی یہی ہوگا اور اس سے امریکی بحریہ متاثر ہوگی۔ یورپ کے ملکوں کے بحری بیڑے مختصر ہو چکے ہیں اور وہ اب اپنے جہاز واپس بحرِ ہند میں نہیں بھیجیں گے۔‘‘
لیکن اگرچہ بین الاقوامی بحری جہازوں کے گشت سے قزاقوں کے حملوں میں کمی آئی ہے ، یہ بات بھی صحیح ہے کہ دوسرے طریقے زیادہ مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ مرفی کہتے ہیں کہ بحری جہازوں کے حفاظتی اقدامات اور مسلح محافظوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے بحری قزاقوں کو حملوں سے باز رکھنا کارگر ثابت ہوا ہے ۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، اب بحرِ ہند کے طاس سے گذرنے والے 35 فیصد بحری جہازوں میں محافظوں کے مسلح دستے موجود ہوتے ہیں ۔ اس وجہ سے اب بحری جہازوں کو ہائی جیک کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں۔
تا ہم مرفی کہتے ہیں کہ اگرچہ مسلح محافظوں کا استعمال کامیاب ثابت ہوا ہے، لیکن یہ ملاحوں میں اور جہاز رانی کی صنعت کے عہدے داروں میں زیادہ مقبول نہیں ہے۔’’ملاح مسلح محافظوں کے خلاف ہیں کیوں کہ انھوں نے سمندر کی زندگی اس لیے اختیار نہیں کی کہ ان پر گولیاں چلائی جائیں اور وہ گولیوں کے تبادلے میں پھنس کر رہ جائیں۔ اور جہازوں کے مالک سمندر میں اپنے جہاز اس لیے لے کر نہیں گئے کہ انہیں یہ فاضل مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے ۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جس کا تعلق زمین سے ہو۔ انھوں نے ایسی ترقیاتی پالیسی تجویز کی ہے جس میں سرکاری عہدے داروں کو نظر انداز کیا جائے اور جو براہِ راست کمیونٹی اور گھرانوں کی سطح پر جائے ۔ اس میں عورتیں اور کاروباری گروپس اور مقامی مساجد شامل ہیں۔
ہمیں قزاقی سے متاثر پورے علاقے کی طرف دیکھنا چاہیئے اور یہ طے کرنا چاہیئے کہ وہ کون سے علاقے ہیں جہاں ہم ترقیاتی کام کر سکتے ہیں ۔ یہ کام عوامی سطح سے شروع ہونا چاہیئے ۔ ہم اسے اوپر سے، یعنی حکومت کے ذریعے نہیں کر سکتے ۔ ہم نے بہت بار حکومت کے ذریعے یہ کام کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ یا تو وہ کرپشن کی نظر ہو گئی ہے یا اس سے تنازعات کھڑے ہو گئے ہیں۔ ہمیں یہ کام بالکل نیچے سے شروع کرنا چاہیئے۔
اس کے علاوہ، وہ کہتے ہیں کہ بحری قزاقی کرنے والوں کے سرغنوں کو ان کے علاقائی اڈوں پر نشانہ بنایا جانا چاہیئے ۔ مرفی کا کہنا تھا کہ قزاقوں کو سمندر میں گرفتار کرنے یا ہلاک کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔’’ہم بہت سے صومالی نوجوانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور وہ بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہےہیں ۔ وہ سمندر میں جاتے ہیں ، کشتی ڈوب جاتی ہے، اور ان کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ ہمیں یہ خیال ترک کر دینا چاہیئے کہ ہم ان نچلے درجے کے کارکنوں کو نشانہ بنا کر قزاقی کو روک سکتےہیں۔ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ ہمیں ان سرغنوں پر ہاتھ ڈالنا چاہیئے جو اس کاروبار کے سربراہ ہیں، اور ان اقتصادی حالات پر توجہ دینی چاہیئے جن کی وجہ سے یہ کاروبار پھل پھول رہا ہے ۔‘‘
بیشتر ممالک اب بحری قزاقی کو مجرمانہ کارروائی سمجھتے ہیں اور اس مسئلے سے جہازوں کو ڈبو کر نہیں بلکہ قانون کے دائرہ ٔ کار میں رہتے ہوئے حل کرنا چاہتے ہیں۔
مرفی کہتےہیں کہ صومالیہ ایک کمزور اور ناکام ریاست ہے، اور اگر اس کی سیکورٹی اور اقتصادی ترقی کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو مسائل اور زیادہ شدید ہو جائیں گے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک مثال پاکستان اور افغانستان کی سرحد ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان مسائل پر توجہ دینی چاہیئے جو پورے قرنِ افریقہ کو درپیش ہیں۔