بالی ووڈ فلموں کے نامور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر، مہیش بھٹ کا کہنا ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب کراچی کی سڑکوں پر بھی آپ بھارتی فلموں کی شوٹنگ ہوتی دیکھ سکیں گے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ایک سوال پر، اُنھوں نے دل گرفتہ انداز میں کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ شوٹنگ کے لئے سری لنکا، سنگا پور، بینکاک اور لندن چلے جاتے ہیں۔ لیکن، کراچی، لاہور یا مری نہیں آپاتے، حالانکہ اس سے دونوں ملکوں کامالی مفاد وابستہ ہے۔‘
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) میں پریس کانفرنس کے دوران نمائندے کے استفسار پر، اُن کا مزید کہنا تھا،’پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی زبان، لوگوں کا رہن سہن، میوزک، کلچر اور فلمی پس منظر ایک جیسا ہے۔ ایسے میں اگر بھارتی پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز پاکستان آکر شوٹنگ کریں گے، تو فلمیں سستی بھی بنیں گی اور مارکیٹ بھی وسیع ہوگی۔ دونوں ممالک کی مشترکہ پروڈکشنز سے ایک تیسرا رنگ نکھرے گا، جو ہمارا اپنا ہوگا۔‘
اپنی بات کی وضاحت میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’راحت فتح علی یا عاطف اسلم نے بھارت جاکر جو میوزک پیش کیا ہے اس سے وہاں کی انڈسٹری میں ایک نئی جان پڑگئی ہے۔ یہ ہمارے لئے بہت اہم ہے کہ جنوبی ایشیاء میں رہتے ہوئے خطے کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان آکر بھی شوٹنگ کریں۔ ہاں کچھ فنکاروں کے ذہنوں میں تھوڑا بہت خوف ہے۔ مگر، وہ بھی امن و امان کے حوالے سے ہے۔ لیکن، ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ خوف کیسا یہاں بھی کروڑوں لوگ رہتے ہیں۔‘
پاکستان اور بھارتی فلم انڈسٹری کو قریب لانے کے لئے کیا کرنا ہوگا، اس کا حل بیان کرتے ہوئے مہیش بھٹ کا کہنا تھا، ’اس کے لئے دونوں حکومتوں کے درمیان مستقل مزاجی سے رابطے میں رہنا ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ کراچی سمیت پاکستان کے دیگر شہروں کی سڑکوں پر بھارتی فلموں کی شوٹنگ کے مناظر ضرور دیکھنے کو ملیں گے بس ذرا ایک ہاتھ بڑھانے کی بات ہے۔۔کیوں کہ ہم ایک دوسرے سے منہ پھیر کر بیٹھ جائیں۔ اب یہ ممکن ہی نہیں۔‘
پریس کانفرنس کے دوران، ایک اور سوال کے جواب میں، مہیش بھٹ نے بتایا: ’2003ء میں جب ہم کارا فلم فیسٹیول کے لئے یہاں آئے تھے تو لوگوں نے کہا تھا کہ اس سے کیا حاصل ہوگا۔ اب دیکھئے اس وقت تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان میں بھی بھارتی فلموں کی نمائش عام بات ہوجائے گی۔ لیکن ایسا ہوکر رہا۔‘
میری بیوی صرف پاکستانی ڈرامے دیکھتی ہے، فواد خان کی فین ہے
مہیش بھٹ نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ ان کی شریک حیات اینگلو انڈین ہیں۔ وہ اردو یا ہندی نہیں بول سکتیں۔ اس لئے، میری یا پوجا بھٹ کی فلمیں بھی نہیں دیکھتیں۔ لیکن، صرف ’زی زندگی‘ سے پیش ہونے والے پاکستانی ڈرامے دیکھتی ہیں اور 24 گھنٹے دیکھتی ہیں۔ انہیں بھارت کا کوئی فنکار پسند ہو یا نہ وہ فواد خان کی بہت بڑی فین ہیں۔‘
پوجا بھٹ دونوں ممالک کو قریب لانے میں معاون ثابت ہوں گی
’تھیٹر ہمارا اسپیس نہیں ہے۔لیکن، یہاں آکر تھیٹر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ دونوں ممالک کے کلچر کو زندہ رکھا جاسکے، اور حکومتیں بھی اس ڈائریکشن میں آگے آئیں۔ فواد خان کو پہلے غیر ملکی کی حیثیت سے پہلا ’فلم فیئر ایوارڈ‘ ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ بھارتی عوام انہیں بہت پسند کرتی ہے اور اس طرح کے اقدامات سے ہی ہم آپس کی دوریاں ختم کرسکیں گے۔ اب یہ مشن میں اپنی بیٹیوں پوجا اور عالیہ کو دے رہا ہوں اب وہ بھی اسے آگے لے کرچلیں گے۔‘
فلموں سے پاکستان کی تصویر بدلی ہے
شعیب منصور صاحب کی فلم ’بول‘ اور ’خداکے لئے‘ وہاں تہلکہ مچا دیا تھا۔ ان دونوں فلموں کے بعد سے ہندوستانی عوام نے پاکستان کو ایک نظر سے دیکھنا شروع کیا ہے۔ پاکستان میں بھی اب ملٹی پلیکس سنیماز بن گئے ہیں اور پاکستانی سنیما و فلم انڈسٹری کی نئے سرے سے شروعات ہوئی ہے۔ ورنہ تو یہ تقریباً ختم ہی ہوگئی تھی۔ پچھلے دس بارہ سال میں صورتحال یکدم بدل گئی ہے۔ پاکستان تکنیکی طور پر بہت ساوٴنڈ ہوا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی آنے کے بعد ینگ جنریشن کو اس سیکٹر میں کشش نظرآئی ہے۔ یہاں ٹیلنٹ بھی بہت ہے اس لئے ہم ایک نئی صبح دیکھ رہے ہیں، یہیں سے نئے دور کا آغاز ہوگا۔‘
پاکستانی فنکاروں کو اپنی شہرت کا اندازہ نہیں
مہیش بھٹ نے ماضی میں کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے پاکستانی فنکاروں سے نامناسب سلوک کی شکایت پر کہا ’یہ بات کسی حد تک درست کہی جاسکتی ہے۔ کچھ فنکاروں کو وہاں سے چلے جانے کا کہا گیا تھا۔ لیکن، سول سوسائٹی نے اس کا بہت منہ توڑ جواب دیا تھا۔ تاہم، ہر فنکار کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ اس کا اندازہ یوں لگایئے کہ فواد آج وہاں کے سپراسٹار ہیں۔ عاطف اسلم وہاں ایسے ہی گھومتے ہیں جیسا کہ ایک عام ہندوستانی سنگر گھومتا پھرتا ہے۔ ہرجیت سنگھ اور عاطف اسلم کے بینر آپ کو جگہ جگہ لگے مل جائیں گے۔ راحت بھائی کو وہاں اتنا پسند کیا جاتا ہے کہ آپ کو اس کا اندازہ بھی نہیں۔‘