امریکی نیوی کا ایک جنگی بحری جہاز جنوبی بحیرہ چین میں، چین کے تعمیر کردہ مصنوعی جزیرے کے 12 بحری میل کے فاصلے پر پہنچ گیا۔
امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے یہ بیجنگ کے لیے امریکہ کی جانب سے سمندر میں پہلا ایسا چیلنج ہے۔
خبررساں ادارے روئیٹرز نے بتایا ہے کہ بحری جہاز یو ایس ایس ڈیوی ، جزائر سپراٹلی کے سلسلے میں اقع ایک جزیرے ’ مس چیف ریف‘ کے قریب پہنچا۔ یہ وہ سمندری حصہ ہے جس پر چین اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے درمیان تنازع چل رہا ہے۔
چین نے کہا ہے کہ اس کے جنگی جہازوں نے امریکی جہاز کو خبردار کیا کہ وہ آگے بڑھنے سے باز رہے اور امریکہ سے شکایت کی۔
چین کا کہنا ہے کہ وہ بدستور نام نہاد آزادانہ جہاز رانی کے خلاف ہے۔
امریکہ کی جانب سے اکتوبر کے بعد سے سمندری گشت اور چین کو چیلنج کرنے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے ۔ واشنگٹن فوجی اہمیت کے اس سمندری حصے میں بیجنگ کی کارروائیوں کو آزادانہ جہاز رانی کو محدود کرنے کوششوں کے طور پر دیکھتا ہے اور صدر ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ چین اپنے اتحادی شمالی کوریا کو جوہری اور میزائل سرگرمیوں سے باز رکھنے تعاون کرے۔
اقوام متحدہ کے ایک کنونشن کے تحت کسی ریاست کے ساحل سے 12 سمندری میل کا علاقہ اس کی حدود میں شمار ہوتا ہے۔
ایک امریکی عہدے دار نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسی زمین کے قریب پہلی کارروائی ہے جس کے متعلق ہیگ کی بین الاقوامی مصالحتي عدالت نے پچھلے سال چین کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔
عدالت نے جنوبی بحیرہ چین کے زیادہ تر حصے پر چین کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔
امریکہ چین کی جانب سے وہاں کے جزیروں میں تعمیراتی سرگرمیوں اور فوجی تنصیبات پر نکتہ چینی کرتا رہا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ چین کے یہ اقدامات اس علاقے میں آزادانہ جہاز رانی کو محددو کر دیں گے۔
چین کی وزارت دفاع کے ایک ترجمان رین گوجیانگ نے اپنی ماہانہ بریفنگ میں بتایا کہ چین کے دو میزائل بردار جہازوں نے امریکی جہاز کو خبردار کرتے ہوئے علاقہ چھوڑ دینے کی ہدایت کی اور امریکہ سے اس خلاف ورزی کی شکایت کی گئی۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لیو کانگ نے کہا کہ سمندر میں اس انداز کی گشت سمندری اور فضائی حادثات کا سبب بن سکتی ہے۔
چین کی جانب سے جنوبی بحیرہ چین کے زیادہ تر حصے پر دعوے کو علاقے کے دیگر ملکوں بشمول برونائی، ملائیشیا، فلپائن، ویت نام اور تائیوان نے مسترد کردیا ہے۔
یہ سمندر بین الاقوامی تجارتي جہاز رانی کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور ہرسال ان آبی گذر گاہوں سے 5 ٹریلین ڈالر کے تجارتي سامان کی نقل وحمل ہوتی ہے۔