کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل جنوبی کوریا میں جمعرات کو کرونا وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ جس کے بعد حکام معمولات زندگی کی جلد بحالی کی اُمید کر رہے ہیں۔
جنوبی کوریا میں فروری کے وسط میں کرونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا۔ جس کے بعد جنوبی کوریا خطے میں چین کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا۔
جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے ملک میں کرونا وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہ ہونے پر کہا کہ یہ عوام کے عزم کا عکاس ہے۔
ماہرین کے مطابق جنوبی کوریا نے بڑے پیمانے پر شہریوں کی ٹیسٹنگ کی۔ اس کے علاوہ سماجی پابندیوں پر بھی سختی سے عمل کیا گیا۔
علاوہ ازیں امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے 'ریمڈیسیوئیر' نامی اینٹی وائرل دوا تیار کر لی ہے۔ جس سے کرونا وائرس کا مریض 30 فی صد جلدی صحت یاب ہو جاتا ہے۔
ان اچھی خبروں سے دنیا بھر میں کئی ماہ سے چھائی مایوسی کی فضا بھی ختم ہو رہی ہے۔
جنوبی کوریا میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 250 ہے۔ جو امریکہ، اٹلی، اسپین، برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں میں ہونے والی اموات سے کہیں کم ہیں۔
دنیا کے اور کن ملکوں میں کرونا کا زور کم ہوا
جنوبی کوریا سے قبل چین، ہانگ کانگ اور نیوزی لینڈ میں بھی وبا کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ نیوزی لینڈ نے باضابطہ طور پر ملک سے کرونا کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔
گو کہ چین میں وائرس سے ہونے والی ہلاکتیں 4600 بتائی جا رہی ہیں۔ لیکن امریکہ سمیت بعض ممالک چین کے اعداد و شمار پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
بعض ملکوں میں وائرس کا زور ٹوٹنے کے باوجود اس سے پڑنے والے معاشی اثرات ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کی اقتصادی ترقی کی شرح بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
ماہرین کے بقول جن ممالک میں یہ وبا ختم بھی ہو گی ہے، وہاں اسے دوبارہ پھیلنے سے روکنے کے دوران معاشی بحالی کی طرف بڑھنا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ کرونا کے باعث پہلی سہ ماہی میں اس کی معاشی ترقی کی شرح میں 4.8 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔
فرانس کی معیشت میں 5.8 فی صد جب کہ اسپین میں 5.2 فی صد کی شرح سے معاشی گراوٹ ہوئی ہے۔
ان ملکوں کے علاوہ جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک نے بھی معاشی بدحالی کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وبا کے باعث ایک ارب 60 کروڑ مزدوروں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا ہے۔