رسائی کے لنکس

جنوبی کوریا: ڈوبنے والی کشتی کے مقدمے میں گواہوں کے بیان


دوبی کشتی کے مالک یو بیونگ ایون کو ناظرین ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں (فائل فوٹو)
دوبی کشتی کے مالک یو بیونگ ایون کو ناظرین ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں (فائل فوٹو)

اطلاعات کے مطابق گواہی دینے والے طالب علموں کے نام نہیں بتائے گئے اور ان کے چہرے بھی صرف ججوں اور وکلا کو دکھائے گئے۔

جنوبی کوریا میں رواں برس میں غرقاب ہونے والی کشتی کے زندہ بچ جانے والے مسافروں کے ایک گروپ نے پیر کو انتہائی سخت سیکورٹی میں ویڈیو لنک کے ذریعے کشتی کے کپتان اور عملے کے دوسرے اراکین کے خلاف قتل کے مقدمے میں اپنی شہادتیں ریکارڈ کروائیں۔

سیول نامی کشتی کے کپتان اور عملے کے اراکین پر الزام ہے کہ حادثے کے وقت وہ کشتی بھاگ گئے تھے۔

اصل مقدمہ دارالحکومت سے 256 کلومیٹر دور جنوب میں گنواگجو میں ہو رہا ہے لیکن طالب علموں کی طرف سے گواہی دینے پر رضا مندی کے بعد جج اور وکلا نے عدالت کی کارروائی دو دنوں کے لیے عنسان منتقل کر دی۔

پہلی مرتبہ عنسان کے ڈیوون ہائی اسکول کے ان نوجوانوں نے ایک ماہ سے زائد عرصہ سے جاری اس مقدمے میں اپنی شہادتیں قلم بند کروائیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق گواہی دینے والے طالب علموں کے نام نہیں بتائے گئے اور ان کے چہرے بھی صرف ججوں اور وکلا کو دکھائے گئے تاہم ان کے بیانات عدالت کے کمرے میں سنے جا سکتے تھے۔

جیسے ہی نوجوان گواہی کے لیے ایک چھوٹی سرخ بس میں وہاں پہنچے، پولیس نے عدالت کے احاطے میں عوام کے لیے مختص مقام کو گھیرے میں لے لیا۔

کشتی کے کپتان اور عملہ کو قتل کے علاوہ لاپروائی برتتے ہوئے مسافروں سے پہلے کشتی چھوڑ جانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ حادثے کی ویڈیو کے بعد جنوبی کوریا میں شدید احتجاج دیکھا گیا۔

یہ جنوبی کوریا کی تاریخ میں سمندری حادثوں میں سے بدترین تھا جس میں تین سو سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر طالب علم تھے جو کہ ایک سیاحتی سفر پر تھے۔

صرف 172 لوگوں کو بچایا جا سکا تھا جن میں 75 طالب علم بھی تھے۔

XS
SM
MD
LG