عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی واحد پاکستانی فلم 'دغاباز دل' نے باکس آفس پر اپنے مدِمقابل انٹرنیشنل فلموں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔
عید کے تینوں دنوں میں فلم نے ملک بھر سے مجموعی طور پر پانچ کروڑ دس لاکھ روپے کا بزنس کیا جو اس سال ریلیز ہونے والی تمام فلموں سے بہتر ہے۔
فلم نے باکس آفس پر پہلے روز ایک اعشاریہ دو کروڑ روپے، دوسرے روز ایک اعشاریہ نو کروڑ روپے اور تیسرے روز دو کروڑ روپے کا بزنس کیا۔
ہدایت کار وجاہت رؤف کی فلم میں مرکزی کردار مہوش حیات اور علی رحمان خان نے نبھایا جب کہ اس میں بابر علی، سلیم شیخ، بیو رعنا ظفر، مومن ثاقب، لیلیٰ واسطی اور تزین حسین نے بھی اہم کردار ادا کیے ہیں۔
فلم کی کہانی ایک ایسے خاندان کے گرد گھومتی ہے جس کے دو بڑے جائیداد کے تنازع کی وجہ سے ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ لیکن اپنے بچوں کی شادی کے لیے اس لیے مان جاتے ہیں کیوں کہ یہ ان کی والدہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔
فلم کے مرکزی کردار دو کزن فارس اور زویا (علی رحمان خان، مہوش حیات) کی شادی کے گرد فلم کی کہانی گھومتی ہے، جو اپنی دادی (بیو رعنا ظفر) کی وجہ سے شادی کے لیے رضامند ہوتے ہیں۔
کہانی میں ایک جن کی بھی انٹری ہوتی ہے جو زویا پر عاشق ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد فلم کی کہانی میں جو اتار چڑھاؤ آتے ہیں وہ اس لو ٹرائینگل کا حصہ ہوتے ہیں جس میں دو انسانوں کے ساتھ ایک جن بھی ہوتا ہے۔
اداکار علی رحمان اور مہوش حیات نے اپنی اداکاری سے مایوس نہیں کیا۔ بالخصوص علی رحمان نے، جنہوں نے لندن سے آئے ایک نوجوان کا کردار ادا کیا جو اپنے علاوہ سب کی خوشی کا خیال رکھتا ہے۔
اس کے برعکس مہوش حیات زویا کے کردار میں صرف اپنے آپ سے محبت کرتی ہے، جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان شادی معاملات الجھ جاتے ہیں۔
فلم کا سرپرائز پیکج مومن ثاقب ہیں جن کی اداکاری پر سنیما میں سب سے زیادہ تالیاں بجیں۔ اس کی وجہ ان کی ٹک ٹاک پر مقبولیت کے ساتھ ساتھ ان کے مزاحیہ ڈائیلاگ بھی تھے جس کے ذریعے کئی سماجی مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی۔
بیو رعنا ظفر نے فلم کیک کے بعد پہلی مرتبہ کسی بڑی فلم میں ماں یا دادی کا کردار ادا کیا۔
معروف کامیڈین افتخار ٹھاکر اور قیصر پیا نے بھی پپی اور چُمی نامی کینگسٹر کے کردار ادا کیے۔ دونوں کی جگت بازی اور حرکات پر شائقین کافی ہنسے۔ خاص طور پر پاکستان سپر لیگ کی ٹیم لاہور قلندر پر ان کی جگت پر زوردار قہقہہ لگا۔
وجاہت رؤف کی یہ مجموعی طور پر بطور ہدایت کار پانچویں فلم ہے۔ اس سے قبل وہ کراچی سے لاہور، لاہور سے آگے، چھلاوہ اور پردے میں رہنے دو بناچکے ہیں اور ان کی یہ تمام فلمیں باکس آفس پر کامیاب رہیں۔
فلم 'دغا باز دل' میں سپر نیچرل یعنی مافوق الفطرت موضوع کو اچھے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسپیشل افیکٹس پر کی گئی محنت اسکرین پر نظر بھی آئی۔
فلم میں ہدایت کار نے جہاں سپر نیچرل کا تجربہ کیا وہیں ہر طرح کے شائقین کو خوش کرنے کی کوشش فلم کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی۔
فلم کی ابتدا ایک روم کوم (رومینٹنک کامیڈی) لگتی ہے جب کہ انٹرویل کے بعد اس میں جن کا اینگل آجاتا ہے جو دیکھنے میں تو برا نہیں لگتا لیکن اس کی وجہ سے کہانی کہیں اور نکل جاتی ہے۔
'دغاباز دل' نے اور کن کن مواقع پر فلم بینوں کو دغا دیا
کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کر دکھانے کی کوشش ہی فلم کا سب سے بڑا ایشو نہیں، اس کو دیکھ کر کہیں کہیں یہ بھی لگتا ہے کہ فلم جلد بازی کی نذر ہوگئی ہے۔
معروف اداکار بابر علی کی بیوی کے کردار کے لیے غیر معروف اداکارہ کا انتخاب ہو، اسکرپٹ میں زبردستی پھوپھی اور ان کی بیٹی کا کردار ہو یا پھر گانوں کی کمی۔ ان سب کو وقت دے کر بہتر کیا جاسکتا تھا۔
اداکارہ تزین حسین کو فلم میں دیکھ کر اچھا لگا لیکن یہ رول ان کے شایان شان نہیں تھا۔ ماضی میں وہ ٹی وی پر اس سے اچھے اور سنجیدہ کردار نبھا چکی ہیں۔ انہیں پھوپھی کے علاوہ کسی اور کردار میں کاسٹ کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
جن اداکاروں کو اہم کرداروں میں کاسٹ کیا وہ جانے پہچانے نہیں تھے۔ اچھے اداکاروں پر دستیاب اداکاروں کو ترجیح دینے سے فلم کی کاسٹ بھی ہلکی لگی، ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کی بھی حق تلفی ہوئی جو ان کرداروں کو بہتر انداز میں نبھا سکتے تھے۔
اسی طرح فلم کے مکالموں میں پنجابی زبان کا بے دریغ استعمال بھی ہے جسے کم کیا جاسکتا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر کامیاب فلموں کی کہانیاں صوبہ پنجاب کے کلچر کے گرد گھومتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ زبردستی اسکرپٹ میں پنجابی زبان میں مکالمے ڈالے جائیں۔
فلم کے پروڈیوسرز بدر اکرام، شازیہ وجاہت اور وجاہت رؤف کا جنات کے موضوع کو فلم میں چھیڑنا خوش آئند اقدام ہو سکتا ہے۔ البتہ جن کی انٹری پہلے ہاف کے بجائے انٹرویل پر ہوتی تو شائقین کا تجسس زیادہ ہوتا۔
صرف ایک گانے پر ڈانس ہونا اور زیادہ ترگانوں کا بیک گراؤنڈ میں ہونا بھی فلم کی کمیوں سے ایک ہے۔ اگر فلم پر تھوڑا سا اور وقت لگالیا جاتا تو کم از کم بابر علی اور سلیم شیخ جیسے اسٹارز پر حسن علی ہاشمی کی جگہ کسی منجھے ہوئے گلوکار سے گانا گنوایا جاسکتا تھا۔
یہاں بالی وڈ کی مثال دینا بھی ضروری ہے جہاں جب سینیئر اداکار پر ایک لائن بھی فلمائی تو اس کے لیے اس اداکار کے لیول کا سنگر لیا۔ جیسے کبھی خوشی کبھی غم میں امیتابھ بچن کے لیے امیت کمار کا، اور اسٹوڈنٹ آف دی ائیر میں رشی کپور کے لیے اڈت نارائن کا انتخاب کیا گیا تھا۔
فلم کے دوران ایک سین میں سرکس میں کچھ لوگوں کو ناچتا ہوا دکھایا گیا جو نہ صرف فلم کی اوور آل پیکنگ کے خلاف جا رہا ہے بلکہ شاید چند شائقین کو عجیب بھی لگے کیوں کہ اس کے بغیر بھی فلم کی کہانی چل سکتی تھی۔
فلم کی کہانی محسن علی نے تحریر کی ہے جو اس سے قبل 'گھبرانا نہیں ہے' اور 'پردے میں رہنے دو' جیسی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھ چکے ہیں۔ دغا باز دل ان کا بہترین کام تو نہیں لیکن اس سال آنے والی دیگر فلموں کے مقابلے میں سب سے بہتر ہے۔
اگر وہ پھوپھی کے فساد اور ان کی بیٹی کی عجیب حرکتوں کی جگہ سپر نیچرل ایلیمنٹ پر تھوڑی اور توجہ دیتے تو اس سے فلم مزید بہتر ہوجاتی، کیوں کہ سنیما میں کراؤڈ جن کے انٹر ایکشن پر سب سے زیادہ ہنس رہا تھا۔
ایک اور سوال جو فلم کو دیکھ کر ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر جن انسان کے روپ میں داخل ہوسکتا تھا تو پھر صرف انٹرویل کے بعد ہی ایسا کیوں ہوتا ہے، پوری فلم میں ایسا ہوتا تو بہتر ہوتا۔
'دغا باز دل' کو پاکستان سے باہر بھی ریلیز کیا گیا ہے اور امکان ہے کہ بیرونِ ملک بھی یہ فلم اچھا بزنس کرنے میں کامیاب ہو گی۔
اس فلم کی ممکنہ کامیابی سے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو کتنا فائدہ پہنچے گا؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے البتہ اب تک اس کی وجہ سے سنیما میں لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
فورم