سیریل کلر جاوید اقبال پر بننے والی ایوارڈ وننگ فلم 'ککڑی' کے ہدایت کار ابوعلیحہ کی فلم 'ٹکسالی گیٹ' حال ہی میں سنیما گھروں کی زینت بنی ہے جس کی کہانی لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا 'ہیرا منڈی' کے گرد گھومتی ہے۔
سولہ فروری کو ریلیز ہونے والی فلم نے اب تک باکس آفس پر کوئی خاص بزنس تو نہیں کیا لیکن اس کی کاسٹ کی پرفارمنس نے دیکھنے والوں کو متاثر ضرور کیا ہے۔
فلم میں اداکارہ عائشہ عمر اور مہربانو نے ایک طوائف اور زیادتی کا شکار بننے والی لڑکی کا کردار ادا کیا ہے۔ اداکار یاسر حسین طوائف چلانے والے شخص کے کردار میں نظر آئے ہیں جن کی اداکاری کو خوب پسند کیا جا رہا ہے۔
'ٹکسالی گیٹ' کا دورانیہ صرف 95 منٹ ہے جس کی وجہ سے فلم بین بوریت کا شکار نہیں ہوتے، البتہ اس میں استعمال ہونے والی گالیوں سے بھری زبان کی وجہ سے اسے 18 سال سے بڑی عمر کے لوگوں کے لیے ہی موزوں سمجھا گیا ہے۔
چند مبصرین اس فلم کا موازنہ سنجے لیلا بھنسالی کی فلم 'گنگو بائی کاٹھیاواڑی' سے کر رہے ہیں تو کچھ کے خیال میں یہ فلم نیٹ فلکس سیریز 'ہیرا منڈی' سے ملتی جلتی معلوم ہو رہی ہے۔
'ہیرا منڈی' لاہور کے اس ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کو کہا جاتا ہے جہاں ایک زمانے میں رقص و موسیقی کا فن سکھایا جاتا تھا لیکن برطانوی راج کے دوران یہاں قحبہ خانے قائم کر دیے گئے تھے جو آج بھی موجود ہیں۔
'ٹکسالی گیٹ' اس کا وہ دروازہ ہے جہاں بازارِ حسن کا کاروبار چلتا ہے۔ فلم میں ہدایت کار ابو علیحہ نے اس تاریخی علاقے کو بہترین انداز میں فلمایا ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں سنجے لیلیٰ بھنسالی کی ویب سیریز 'ہیرا منڈی' کا ٹیزر بھی ریلیز ہوا تھا جس کی کہانی بظاہر 1947 سے قبل لاہور کی 'ہیرا منڈی' کے گرد گھومتی ہے۔ لیکن اس سیریز کی عکس بندی ماڈرن انداز سے کی گئی ہے۔
نیٹ فلکس کے لیے بنائی جانے والی اس ویب سیریز کی ریلیز کا اعلان ابھی نہیں ہوا ہے البتہ اس میں منیشا کوئرالہ، سناکشی سنہا اور ادیتی راؤ حیدری نے اداکاری کی ہے۔
ٹکسالی گیٹ کی کہانی کیا ہے؟
فلم 'ٹکسالی گیٹ' دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ہیرا منڈی میں پرورش پانے والی ایک لڑکی زینب اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔
اداکارہ عائشہ عمر نے مسکان نامی ایک ایسی طوائف کا کردار ادا کیا ہے جو اپنے علاقے میں رہنے والی لڑکی کا ساتھ دیتی ہے اور اپنی خراب شہرت کے باوجود اس کی ہرممکن مدد کرتی ہے۔
اداکارہ مہربانو نے زینب کا مرکزی کردار نبھایا جس کا بوائے فرینڈ اسے زیادتی کا نشانہ بناتا ہے جب کہ نیر اعجاز نے متاثرہ لڑکی کے والد کا کردار ادا کیا ہے۔
یاسر حسین اس فلم میں لڑکی کے چچا کے کردار میں نظر آئے لیکن انہیں علاقے کے افراد طوائفوں کے منیجر کے طور پر جانتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بھتیجی کا کیس بھی خراب ہو جاتا ہے۔
عام طور پر پاکستانی فلموں میں مکالمے بے جان ہوتے ہیں لیکن 'ٹکسالی گیٹ' کے مکالمے مضبوط ہیں جنہیں ہر کردار کی مناسبت سے لکھا گیا ہے۔ ہدایت کار نے صرف ڈائیلاگ پر ہی انحصار نہیں کیا بلکہ چند سین بغیر مکالموں کے بھی بہتر انداز سے فلمائے۔
کون سی خامیوں کو بہتر کیا جاسکتا تھا؟
'ٹکسالی گیٹ' کو جہاں کم بجٹ میں بنایا گیا ہے وہیں اسے کم وقت میں بھی فلمایا گیا ہے۔ فلم کے ٹائٹل کسی ٹی وی ڈرامے کی طرح شروع ہوتے ہی آگئے جب کہ اگر کرداروں کے تعارف کے بعد اسے فلمی انداز میں شروع کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
فلم کے بیک گراؤنڈ میں موسیقی کو استعمال کیا گیا ہے۔ البتہ ہیرا منڈی کے تناظر میں بننے والی فلم میں ڈانس نمبر ہی موجود نہیں۔
اس کے علاوہ بعض جگہوں پر ایسا لگا جیسے کیمرا آؤٹ آف فوکس ہو گیا جس کی وجہ سے دیکھنے والے کا دھیان سین سے ہٹ جاتا ہے۔
ویسے تو 95 منٹ کی فلم میں ایڈیٹنگ کے مسائل نہیں ہونے چاہیے تھے لیکن اس کے کچھ اہم سین میں 'فیڈ ان فیڈ آؤٹ' تکنیک استعمال کرکے سین کی اہمیت کم کر دی گئی، خاص طور پر اس سین میں جس میں نیر اعجاز کو اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے واقعے کا علم ہوتا ہے۔
اگر یہ سین چلتا رہتا تو دونوں کرداروں کی اداکاری سے دیکھنے والے متاثر ہوتے لیکن دو سے تین مرتبہ 'بلیک فریم' ڈالنے کی وجہ سے شائقین کی توجہ ہٹ گئی۔
'ٹکسالی گیٹ' رواں برس ریلیز ہونے والی تمام فلموں میں سب سے بہتر تو ہے ہی لیکن ملک میں الیکشن کی گہما گہمی اور پاکستان سپر لیگ کے نویں ایڈیشن کے ساتھ اس کا ریلیز ہونا باکس آفس پر اس کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔
فورم