مختلف ملکوں میں کرونا لاک ڈاون کی وجہ سے پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے پی آئی اے کی خصوصی پروازیں جاری ہیں اور 28 اپریل تک 121 پروازوں کے ذریعے 11 ہزار کے لگ بھگ اوورسیز پاکستانیوں کو واپس لایا جائے گا۔ جب کہ ملک میں موجود ان پاکستانیوں کو واپس پہنچانے کا بندوبست کیا جا رہا ہے جو روزگار یا دیگر وجوہات کی بنا پر بیرونی ملکوں میں رہتے ہیں، لیکن فلائٹس بند ہونے کی وجہ سے واپس نہیں جا پا رہے۔ ان کی تعداد تقریباً 18 ہزار بتائی جاتی ہے۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان خصوصی پروازوں کے ذریعے زیادہ تر برطانیہ، کینیڈا اور یورپی ملکوں میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لایا جائے گا۔ اس کے علاوہ افریقہ کے کچھ ملکوں میں، جہاں تبلیغی جماعت کے بہت سے کارکن پھنسے ہوئے ہیں، کو بھی لایا جائے گا۔ جب کہ کچھ علاقوں مثلاً کوالالمپور وغیرہ کے لیے پروازوں کو بڑھایا جائے گا۔
جب ان سے بیرونی ملکوں سے آنے والے پاکستانیوں کی جانب سے پی آئی اے کے کرایوں میں دو سے تین گنا اضافے کی شکایت کے بارے میں پوچھا گیا تو عبد اللہ حفیظ خان نے بتایا کہ یہ پروازیں چونکہ زیادہ تر یک طرفہ تھیں، جنہیں چلانے پر خرچ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ان کے کرائے عام پروازوں سے زیادہ تھے، لیکن دو یا تین گنا زیادہ ہرگز نہیں تھے۔ تاہم مسافروں کی شکایت پر اب یہ کرائے گھٹا دیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہائی سیزن کا ٹکٹ جو ایک لاکھ نوے ہزار روپے کا ہوا کرتا تھا۔ اسے کم کرنے کے بعد پہلے ایک لاکھ 45 ہزار اور اب ایک لاکھ 11 ہزار کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات کے لئے کرایہ 1500 درھم یا ساٹھ ہزار پاکستانی روپے کو بھی کم کر دیا گیا ہے۔
جب ان سے بیرون ملک کرونا کی بجائے طبعی انتقال کرنے والے پاکستانیوں کی میتوں کی وطن واپسی میں تاخیر کے متعلق پوچھا گیا تو پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کے ترجمان نے بتایا کہ اس کی وجہ پی آئی اے کا یہ ضابطہ تھا کہ فلائٹ میں میت کے ساتھ اس کے کسی اٹینڈنٹ کی موجودگی لازمی ہے، تاہم اب ایوی ایشن ڈویژن نے ضابطہ تبدیل کر کے یہ شرط ختم کر دی ہے۔ اب میت کسی اٹینڈنٹ کے بغیر بھی وطن بھجوائی جا سکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی اسے وصول کرنے والا موجود ہو۔ انہوں نے بتایا کہ میتوں کو واپس لانے کے لیے پی آئی اے کوئی چارجز وصول نہیں کرتا۔
عبداللہ حفیظ نے مزید بتایا کہ پی آئی اے کرونا وائرس کی اس ہنگامی صورت حال میں بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کی اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس رکھتے ہوئے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے سب سے پہلے سعودی عرب سے صرف ایک ہفتے میں عمرے پر گئے سات ہزار زائرین اور مزید تقریباً ڈھائی ہزار پاکستانیوں کو وطن واپس لایا گیا۔ بغداد ائیر پورٹ پر تین ہفتوں سے پھنسے 175 زائرین وطن کو ملک میں لایا گیا اور اب توجہ کا مرکز متحدہ عرب امارات کے ان 30 ہزار پاکستانیوں کی واپسی پر مرکوز ہے جو وہاں بے روزگار ہو چکے ہیں یا جنہیں ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے، یا جو رخصت پر ہیں اور وطن جانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی فلائٹس میں بہت سے مغربی ملکوں کے مقابلے میں عملے اور مسافروں کے لئے زیادہ بہتر حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جہاز میں سوار ہونے سے پہلے اور بعد میں تمام مسافروں کے ٹسٹ ہوتے ہیں اور اترتے وقت سبھی کا سو فیصد کرونا ٹسٹ کیا جاتا ہے۔ بیرونی ملکوں سے آنے والوں کو تین روز تک لازماً آئسولیشن میں رکھا جاتا ہے۔ اور پھر کرونا ٹیسٹ کے رزلٹ آنے کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے یا پھر اسپتال یا قرنطینہ کے مراکز میں بھیج دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاز کے کیبن اور کاک پٹ کو کئی بار ڈس انفیکٹ کیا جاتا ہے۔ ان جگہوں پر بطور خاص توجہ دی جاتی ہے، جنہیں بار بار چھوئے جانے کا اندیشہ ہو۔ طیارے کے ائیرکنڈیشنر کے فلٹرز کو ہر فلائٹ کے بعد تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اور مسافروں کو پیش کیا جانے والا کھانا حفظان صحت کے تمام اصولوں کے تحت تیار اور پیش کیا جاتا ہے۔
عبداللہ حفیظ نے کہا کہ پی آئی اے کے اس تمام فلائٹ آپریشن کا مقصد مالی منفعت نہیں بلکہ قومی جذبے اور انسانی ہمدردی کے تحت اس مشکل وقت میں پاکستانیوں کی زندگی کو آسان بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔