دنیا بھر میں کرونا وائرس کے باعث مختلف ملکوں نے سفری پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ فلائٹ آپریشن بند ہے۔ لیکن مختلف ملکوں میں پھنسے شہریوں کی واپسی کے لیے خصوصی پروازیں چلائی جا رہی ہیں۔
البتہ وطن واپس آنے کے خواہش مند پاکستانیوں کو گلہ ہے کہ قومی ایئر لائن پی آئی اے سمیت دیگر فضائی کمپنیاں ان سے زائد کرایہ وصول کر رہی ہے۔
دنیا کے مختلف ملکوں میں پھنسے پاکستانیوں کی تعداد 40 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ جن میں سے بہت سے پاکستانی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی ایئر لائن اب تک خصوصی پروازوں کے ذریعے صرف 2000 لوگوں کو واپس لا سکی ہے۔
ہزاروں پاکستانیوں کو دوہری مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ ایک طرف پاکستان واپسی کے لیے اُنہیں غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ تو وہیں مہنگے ٹکٹ اور پاکستان واپسی پر مختلف ہوٹلز میں قرنطینہ کی غرض سے رہنے کے اخراجات بھی اب مسافروں کو برداشت کرنا ہوں گے۔
اب تک پاکستان کے لیے جو خصوصی پروازیں آپریٹ کی گئی ہیں ان میں کینیڈا کے لیے یک طرفہ کرایہ تقریباً 2800 کینیڈین ڈالر یعنی تین لاکھ روپے سے زائد وصول کیا گیا۔
اس کے علاوہ دبئی کی پرواز کے لیے 1500 درہم کا یکطرفہ ٹکٹ فراہم کیا گیا۔ لندن کے لیے پاکستانی روپوں میں ایک لاکھ 45ہزار میں ٹکٹ دیا گیا۔
امریکہ میں ایک تربیتی پروگرام کے لیے جانے والی طالبہ فرازے سید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت نیویارک میں موجود ہیں۔
اُن کے بقول خلیجی ملک کی قطر ایئر ویز نے پاکستان کے لیے ایک پرواز بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پرواز ڈیلس سے دوحہ اور دوحہ سے لاہور جائے گی۔ انہیں نیویارک سے ڈیلس جانا پڑے گا لہذا انہیں ایک طرف کا کرایہ 2600 امریکی ڈالر ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی روپوں میں یہ رقم تقریباً چار لاکھ 12 ہزار روپے بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ہم نے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا وہ اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتے۔
فرازے کے بقول اس وقت صرف نیویارک میں پانچ سو سے زائد پاکستانی ہیں جو وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔ دیگر ریاستوں میں کہیں بڑی تعداد ہوگی اور فی الحال پاکستان کے لیے صرف یہ ایک پرواز جا رہی ہے۔
فرازے سید کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جب پاکستان نے کرونا ٹیسٹ کی شرط رکھی اس وقت بھی ان کا ایک ٹکٹ ضائع ہوگیا تھا۔ کیوں کہ ایئر لائن نے پاکستانی 'نوٹم' (سفری شرائط) کی وجہ سے بورڈنگ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکہ میں وزٹ پر آئے لوگوں کو ٹیسٹ کرانے کے لیے بھی کوئی سہولت نہیں مل رہی تھی۔
قطر ایئر ویز کے میڈیا سیکشن کو مہنگے ٹکٹ کے حوالے سے ردعمل جاننے کے لیے ای میل بھجوائی گئی لیکن اس رپورٹ کے شائع ہونے تک ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
جنوبی کوریا جانے والے ایک طالب آصف رضا نے کہا کہ سیول جانے کے لیے پی آئی اے کی صرف ایک پرواز ہے جس پر ڈیڑھ لاکھ روپے کا ٹکٹ مل رہا ہے۔ لہذٰا اُن کے پاس یہ مہنگا ٹکٹ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
پی آئی اے کا موقف
پاکستان کی قومی ائیرلائن (پی آئی اے) کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی مہم چلتی رہی۔ جس میں عوام نے اس مشکل وقت میں مہنگے ٹکٹ فروخت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت آپریشنل لاگت بہت زیادہ ہے۔ اور پی آئی اے بیشتر مقامات سے جہاں مسافروں کو واپس لارہی ہے۔ وہاں مسافر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اگر کینیڈا سے پاکستانیوں کو لانے کے لیے پرواز جار ہی ہے تو اس میں یہاں سے مسافروں کو لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے سولہ گھنٹوں تک جہاز فیری فلائٹ کے طور پر اڑتا ہے اور مسافروں کو لے کر آتا ہے۔ لہذٰا اخراجات بہت زیادہ اور آمدن بہت کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پی آئی اے بغیر منافع کمائے اپنا آپریشن چلا رہی ہے اور مختلف ممالک سے پاکستانیوں کو واپس لارہی ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ شروع میں لوگوں کو ریٹس زیادہ لگے اور اس پر اجتجاج ہوا جس کے بعد حکومت کی ہدایت پر یہ ریٹس مزید کم کردیے گئے ہیں۔
عبداللہ خان کے بقول اس وقت لندن کے لیے ایک لاکھ دس ہزار، دبئی سے کراچی 60 ہزار اور دبئی سے لاہور 67 ہزار میں مسافروں کو لایا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے مقابلے میں بین الاقوامی ایئر لائنز کے ٹکٹ پی آئی اے کے مقابلے بہت زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تمام ایئرلائنز ہی نقصان میں جارہی ہیں اور پی آئی اے کے نقصانات بھی ہیں۔ البتہ انہوں نے پی آئی اے کے اب تک کے نقصانات بتانے سے معذرت کی۔