امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ پیر کو پاکستان پہنچے جہاں انہوں نے پاکستانی ہم منصب محمد صادق سے افغانستان کی صورتِ حال کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ہے۔
امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ 29 جنوری سے چار جنوری تک خطے کے دوران پاکستان کے علاوہ جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کا بھی دورہ کریں گے جہاں وہ امریکہ کے شراکت داروں،افغان اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے نمائندوں سے افغانستان میں مشترکہ مفادات کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندۂ خصوصی تھامس ویسٹ ایک ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جب افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے گزشتہ ماہ خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول پر پابندی عائد کر دی ہے جب کہ خواتین کو مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے سے روک دیا ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے بیان کے مطابق افغان طالبان کے حالیہ اقدامات بین الاقوامی برادری کے لیے غیر معمولی چیلنج کا باعث ہیں جب کہ امریکہ افغان عوام کی مدد کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ بھی چاہتا ہے۔
محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ اپنے ہم منصب سفارت کاروں سے مل کر علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا مؤقف وضع کرنے کی کوشش کریں گے جو افغان خواتین کے حقوق اور ضروری امداد تک رسائی سے متعلق ایک اجتماعی عزم کا مظہرہو۔
امریکہ کے افغانستان کے لیے نمائندۂ خصوصی کے دورے کے حوالے سے افغان امور کے تجزیہ کار اور سینئر صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ بین ااقوامی برادری کے ساتھ ساتھ افغانستان کے پڑوسی ممالک کو یہ توقع نہیں تھی کہ طالبان اقتدار میں آنے کے بعد ہر دوسرے روز خواتین کے حقوق کو محدود کرنے کے اقدامات کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب طالبان نے رواں برس طالبات پر نجی جامعات میں داخلے کے ٹیسٹ میں شامل ہونے پر پابندی لگا دی ہے۔
اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان نے خواتین کے حقوق محدود کرنے کےکئی اقدامات کیے ہیں۔ ان پر روزگار کے مواقع بھی محدود کیے جا رہے ہیں۔ طالبان نے لڑکیوں کے چھٹی جماعت کے بعد تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی لگادی تھی تاہم کئی طالبان کا دعویٰ ہے کہ لڑکیوں کی سکینڈری اسکول کی تعلیم پر پابندی عارضی ہے۔ لڑکیوں کے تعلیمی نصا ب کو اسلامی اقدار پر ترتیب دینے لیے وقت درکار ہے۔
صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ امریکہ، اس کے اتحادی ممالک اور بین الاقوامی برادری پرافغان عوام کا دباؤ بڑھ رہا ہے کہ و ہ طالبان کی پالیسیاں تبدیل کرنے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کریں ۔
پاکستان خواتین سے متعلق افغان طالبان حکام کی پالیسیوں پر مایوسی کا اظہار کرتا رہا ہے البتہ اسلام آباد دنیا پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ روابط برقراررکھیں تاکہ افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر امداد جاری رہے۔
دوسری جانب پاکستان کو خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش ہے جب کہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے شدت پسندوں کی مبینہ موجودگی اسلام آباد کے لیے مسلسل مسائل کا باعث بن رہی ہے۔ صحافی طاہر خان کے مطابق امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان کی پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں دہشت گردی کے معاملات بھی زیرِ بحث آئیں گے۔
طاہر خان کہتے ہیں کہ چین اور روس کے افغانستان کے معاملے پر مغربی ممالک سے اختلافات کے باوجود وہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ طالبان کو افغانستان کی سر زمین کسی دوسری ملک کے خلاف استعمال نہ کے بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا طالبان کی طر ف سے اگر مسلسل ایسی پالیسیاں جاری رکھی گئیں جن پر بین الاقوامی برادری کو تحفظات ہوں تو افغان طالبان کی حکومت کے لیے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔