سری لنکا میں حکام نے حکومت کے خلاف جاری احتجاج میں مظاہرین کے قبضے میں جانے والے صدارتی دفتر واگزار کرانے کے بعد پیر سے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں کے بعد محاصرے میں لیا گیا صدارتی دفتر آئندہ ہفتے دوبارہ فعال ہو جائے گا۔
ملک میں جاری معاشی بحران پر وسیع عوامی رد عمل پر رواں ماہ کے شروع میں نو آبادیاتی دور میں تعمیر کردہ تاریخی عمارت پر مظاہرین نے دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔
خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے صدر گوتابایا راجا پکسے کو فوج نے ان کی رہائش گاہ سے محفوظ انداز میں نکال لیا تھا جس کے بعد وہ مالدیپ اور پھر سنگاپور فرار ہو گئے تھے۔ فرار ہونے کے بعد انہوں نے استعفی دے دیا تھا۔
گوتابایا راجا پکسے کے بعد صدر بننے والے رانیل وکرما سنگھے کے حکم پر جمعے کی صبح سے خود کار ہتھیاروں سے لیس سیکیورٹی دستوں نے کارروائی کر کے 92 سالہ قدیم صدارتی سیکریٹریٹ کو مظاہرین کےمحاصرے سےآزاد کرلیا۔
کارروائی کے دوران کم از کم 48 افراد زخمی ہوئے اور نو افراد کو گرفتار بھی کیا گیا جب کہ کارروائی کے دوران سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے رواں سال اپریل سے لگائے گئے کیمپ بھی اکھاڑ دیے۔
پولیس حکام نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ صدارتی دفتر پیر سے کھلنے کے لیے تیار ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ فرانزک کے ماہرین نے مظاہرین کے کیے گئے نقصانات کے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے دفتر کا دورہ کیا ہے۔ سیکریٹریٹ کا محاصرہ جو نو مئی سے جاری تھا، اب ختم ہو گیا ہے۔
مغربی حکومتوں، اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے وکرما سنگھے کی غیر مسلح مظاہرین کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے، جنہوں نے جمعے کو دفتر خالی کرنے کی حامی بھری تھی۔
پولیس ترجمان نہال تل دوا کا اتوار کو کہنا تھا کہ مظاہرین کو صدارتی دفتر کے قریب واقع طے کردہ مقام پر مظاہرے کرنے کی اجازت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ حکومت مظاہروں کے لیے دیگر مقامات بھی مقرر کر سکتی ہے۔
سیکریٹریٹ کی عمارت اور اس کے قریبی علاقوں کو مظاہرین سے خالی کرانے کی مسلح کارروائی وکرما سنگھے کی حلف برداری کے بعد 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں کی گئی جب کہ اسی وقت انہوں نے نئی کابینہ کے تقرر کا بھی اعلان کیا۔