سرکردہ آزادی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ نمازِ جمعہ کے بعد واشنگٹن میں کشمیری نژاد امریکی شہری ڈاکٹر غلام نبی فائی کی وہاں غیر قانونی لوبنگ کے الزام میں گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے کریں۔
اِسی دوران، یہ خبر بھی آئی کہ ضلعہ کُلگام کے ایک دور دراز گاؤں میں دو مسلح افراد نے جِن پر بھارتی فوجی ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے، ایک گُجُر خاتون، 27سالہ رقیہ بانو کو اغوا کرنے کے بعد دو دِن تک حبسِ بیجا میں رکھا گیا جِس کے دوران اُن کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی۔ چناچہ، بڑھتے ہوئے تناؤ اور اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ جمعے کے دِن مذہبی اجتماعات کو سیاسی مظاہروں میں تبدیل نہ کیا جائے، پولیس نے تقریباً تمام چھوٹے بڑے آزادی پسند لیڈروں کو یا تو اُن کے گھروں میں نظربند کردیا یا پھر اُنھیں گرفتار کرکے لے گئی۔
اگرچہ، غلام نبی فائی کی گرفتاری کے خلاف کہیں سے کسی بڑے مظاہرے کی کوئی اطلاع نہیں، شمال مغربی شہر سوپور میں پولیس کے ہاتھوں ایک مقامی دوشیزہ کی مسلمان عسکریت پسندوں کے ساتھ مبینہ طور پر رابطہ رکھنے کے الزام میں گرفتاری کے خلاف عام ہڑتال کی گئی۔
اُدھر جنوبی شہر کُلگام اور آس پاس کے علاقوں میں گُجُر خاتون کےساتھ کی گئی جنسی زیادتی کے خلاف عام ہڑتال کی گئی۔ نمازِ جمعہ کے بعد بعض علاقوں میں مظاہرین جو بھارت، مقامی حکومت اور فوج کے خلاف نعرے لگار ہے تھے، اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت استعمال کی۔
یہ خبر بھی ہے کہ مظاہرین نے ایک پولیس گاڑی میں آگ لگادی۔ پولیس کہتی ہے کہ اُس نے خاتون کو اغوا کرنے اور پھر اُس کی اجتماعی عصمت دری کرنے کے سلسلے میں کیس درج کرکے نامعلوم ملزموں کی تلاش شروع کردی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے یقین دلایا کہ اگر اِس میں واقعی بھارتی فوجی ملوث پائے گئے تو اُنھیں کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جائے گا۔
سری نگر میں فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل سعید عطا حسنین نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اگرچہ وہ وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ اِس واقعےمیں فوج ملوث نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ مسلمان عسکریت پسندوں نے فوج کو بدنام کرنے کے لیے جرم کا ارتکاب کیا ہو۔ لیکن فوج پولیس کو تحقیقات میں بھرپور تعاون دے گی اور خود بھی یہ تحقیقات کر رہی ہے۔