جمعرات کو بھارتی حفاظتی دستوں نے شورش زدہ کشمیر میں کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی ایک جھڑپ کے دوران ایک پی ایچ ڈی اسکالر سے باغی بننے والے نوجوان، منان بشیر وانی اور اُن کے ایک قریبی ساتھی کو ہلاک کر دیا۔
جھڑپ کا آغاز سرحدی ضلع کپوارہ کے شارٹ گنڈ قلم آباد نامی گاؤں کو بُدھ کی رات بھارتی فوج کی 30 راشٹریہ رائفلز، مقامی پولیس کے عسکریت مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) اور بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کی طرف سے گھیرے میں لینے کے ساتھ ہی ہوا تھا۔
عہدیداروں نے بتایا ہے کہ حفاظتی دستوں کو سراغرساں ذرائع سے منان وانی اور اُن کے ساتھیوں کی ایک نجی گھر میں موجودگی کی اطلاع ملی تھی اور انہوں نے جونہی اس گھر کو گھیرے میں لے لیا عسکریت پسندوں نے اُن پر فائرکھولا۔ سرینگر میں پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ محصور عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر خود کو قانون کے حوالے کرنے کا موقعہ فراہم کیا گیا۔ لیکن انہوں نے لڑنے کو ترجیح دی۔ جس پر علاقے سے عام شہریوں کو بحفاظت باہر نکالا گیا اور پھر جمعرات کی صبح طرفین کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ جھڑپ میں منان وانی اور اُن کا ایک ساتھی عاشق حسین زرگر کام آگئے۔
عہدیداروں نے اسے حفاظتی دستوں کی ایک بڑی کامیابی قرار دیدیا۔
منان وانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ لیکن انہوں نے اس سال جنوری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے ریسرچ ادھوری چھوڑ کر خاموشی کے ساتھ واپس وادی کشمیر کا رُخ کیا۔ اُن کے اچانک لاپتہ ہونے کے چند دن بعد سوشل میڈیا میں اُن کی ایسی تصویریں ڈالی گئیں جن میں انہیں ایک اے کے 47 بندوق ہاتھوں میں تھامے دیکھا جاسکتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ منان وانی نے تعلیم کو خیر باد کہہ کر "وطن کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کا حصہ بن کر ہماری تنظیم میں شامل ہونے کو ترجیح دی ہے"۔
کپوارہ سے اطلاعات کے مطابق، جھڑپ کے دوران علاقے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں پر آکر آزادی کے مطالبے اور عسکریت پسندوں کے حق میں مظاہرے کئے اور فوجی آپریشن میں رخنہ ڈالنے کی بار بار کوششں کی۔ منان وانی اور اُن کے ساتھی کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی ان مظاہروں میں شدت آگئی اور پھر ضلعے کے چند مقامات پر مشتعل مظاہرین اور حفاظتی دستوں کے درمیان تصادم ہوئے۔ حفاظتی دستوں نے پتھراؤ کرنے والے ہجوموں پر بانس کے ڈنڈے چلائے، اشک آور گیس کے گولے داغے، چھرے والی بندوقیں استعمال کیں اور مبینہ طور پر گولی چلادی۔ متعدد افراد کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے۔
اس سے پہلے حکام نے کپوارہ اور جنوبی ضلع پلوامہ میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز بھی روک دی گئیں۔ عہدیداروں نے کہا ہے کہ ایسا حفظ ماتقدم کے طور پر کیا گیا، تاکہ امن و امان میں رخنہ نہ پڑسکے۔
جمعرات کی سہ پہر کو کشمیر یونیورسٹی کے طلبہ نے سرینگر کے حضرت بل علاقے میں یونیورسٹی کیمپس پر ایک مظاہرہ کیا اور پھر منان وانی کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی۔
بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیشِ نظر، حکام نے جمعے کو وادی کشمیر کے کئی علاقوں میں تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیز گرمائی صدر مقام سرینگر کے حساس علاقوں میں احتیاتاً حفاظتی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے منان وانی کے مارے جانے پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ "آج ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے زندگی کو نہیں موت کو چنا اور ایک جھڑپ کے دوران مارا گیا۔ اُس کی موت مکمل طور پر ہماری شکست ہے۔ ہم ہر روز تعلیم یافتہ نوجوان لڑکوں کو کھو رہے ہیں"۔
انہوں نے ریاست میں خونریزی کو بند کرنے کے لئے تمام متعلقین سے مکالمہ شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا اورایک ٹویٹ میں کہا " یہ صحیح وقت ہے جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو صورت حال کی کششِ ثقل کو سمجھنا چاہیے اور تمام اسٹیک ہولڈرس کے ساتھ جن میں پاکستان بھی شامل ہے بات کرنے کے لئے راہ ہموار کرنی چاہیے تاکہ یہ خونریزی بند ہو"۔
سرکردہ آزادی پسند راہمنا میر واعظ عمر فاروق نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ "افسوس! منان وانی اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کی اندوہناک خبر سنی۔ اس بات پر گہرا دکھ ہے کہ ہم نے ابھرتے ہوئے دانشور اور قلم کار کو اُس کی طرف سے حقِ خود ارادیت کے مقصد کے لئے لڑتے ہوئے کھو دیا ہے۔ مشترکہ مزاحمتی قیادت لوگوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ شہید کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے کل جمعے کو مکمل ہڑتال کریں"۔
اس دوران نامعلوم مسلح افراد نے جنوبی ضلع شوپیان میں پاکستان نواز جموں و کشمیر مسلم لیگ کے ایک سرگرم کارکن طارق احمد گنائی کو اُن کے گھر میں زبردستی گھس کر نزدیک سے چار گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
گنائی تحریکِ حریت تنظیم کے بانی ممبران میں شامل تھے۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے بزرگ آزادی پسند راہنما سید علی شاہ گیلانی کی قیادت میں کام کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس (گ) میں شامل اکائی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔