اسرائیل اور حماس کی تباہ کن جنگ میں سینکڑوں غیر ملکی غزہ کی پٹی میں پھنس کر رہ گئے ہیں ۔ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے ان کی حکومتوں نےانہیں مصر کے راستے انخلا کے لیے غزہ کی رفح کراسنگ پر انتظا ر کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
اب جب کہ بمباری شدت اختیار کر رہی ہے اور اسرائیل کے سخت محاصرے میں حالات انتہائی دگر گوں شکل اختیار کر رہے ہیں ، غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والے فلسطینیوں کو اس حوالے سے دوہرا معیار دکھائی دے رہا ہے کہ ان کے ملکوں نے اسرائیل سے اپنے شہریوں کو نکالنے کی رفتار تو تیز کر رکھی ہے جب کہ انہیں نظر انداز کر رہے ہیں جو غزہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر وہ دن جب راہداری نہیں کھلتی وہ ایک ایسا دن ہوتا ہے جب وہ کسی فضائی حملے میں مارے جا سکتے ہیں۔
ناروے کے ایک شہری طلعت گبین ، جن کی پوری زندگی اوسلو میں گزری ہے ، کئی دن اور کئی راتوں سے مصر کے ساتھ واقع غزہ کی پٹی کی زمینی گزر گاہ پر انتظار کر رہے ہیں کیوں کہ ان کے سفارت خانے نے یہ ہی ہدایت دی تھی ۔ انہیں امید ہے کہ وہ اسرائیل کی بمباری اور منڈلاتے ہوئے زمینی حملے سے جان بچا کر گھر واپس پہنچ جائیں گے اور اپنی اہلیہ اور بیٹوں سے پھر سے مل سکیں گے ۔
جنگ چھڑنے کے بعد سے سخت مغربی دباؤ کے تحت رفح کے گیٹ اختتام ہفتہ پر پہلی بار کھولے گئے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھیجی گئی انتہائی قلیل امداد کو محصور پٹی میں داخلے کی اجازت ملی اور یہ امید پیدا ہوئی کہ غزہ میں پھنسے ہوئے سینکڑوں غیر ملکی شہری بحفاظت سرحد پار کر سکیں گے۔
گبین نے اسرائیلی فوج کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذبات سے بلند ہوتی ہوئی آواز میں کہا ، “ وہ ہم سے کہتے ہیں کہ جنوب کی طرف جائیں ۔ پھر وہ جنوب میں بمباری کرتے ہیں ۔ وہ ہمیں کہتے ہیں کہ اسپتالوں میں جائیں ، پھر وہ اسپتالوں پر بمباری کرتے ہیں ۔ وہ ہم سے کہتے ہیں کہ پناہ گاہوں میں جائیں ، پھر وہ پناہ گاہوں پر بمباری کرتے ہیں ۔ ہم حماس نہیں ہیں ، ہم بے گناہ شہری ہیں جو یہاں رہتے بھی نہیں ہیں ۔ ”
جب سے جنگ چھڑی ہے امریکہ اور دوسرے ملکوں نے اسرائیل میں اپنے شہریوں کو یورپ کے مختلف مقامات تک پہنچانے کے لیے چارٹرڈ فلائٹس ، یہاں تک کہ انخلا کے لیے ایک بحری جہاز تک کا بندو بست کیا۔ لیکن ایسا کوئی انخلا غزہ میں پھنسے ہوئے ان غیر ملکی شہریوں کےلیے نہیں کیا گیا ہے جو علاقے کی تاریخ کی شدید ترین اسرائیلی بمباری ،خوراک ، پانی اور ایندھن کی شدید قلت سے نمٹ رہے ہیں کیوں کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کےلیے رسدوں کا اپنا سلسلہ بند کر دیا ہے ۔
گبین غزہ میں یورپی یا امریکی شہریت کے حامل ان فلسطینیوں میں شامل ہیں جن کی تعداد مغربی سفارت کارو ں کے اندازے کے مطابق لگ بھگ 1700 ہے ۔ وہ اسرائیل کی اس تباہ کن فضائی مہم میں پھنس کر رہ گئے ہیں جس میں ہزاروں فلسطینی مارے جاچکے ہیں اور پورے مضافاتی علاقے تباہ ہو چکے ہیں ۔ اسرائیل نے اپنی مہم حماس جنگجوؤں کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے اس غیر معمولی حملے کے جواب میں شروع کی ہے جس میں 1400 لوگ ہلاک ہوئے اور 200 سے زیادہ کو یرغمال بنایا گیا۔
اس کے علاوہ غزہ میں سینکڑوں وہ فلسطینی بھی موجود ہیں جن کے پاس غیر ملکی پاسپورٹ ہیں ۔ ان میں سے بہت سوں نے کہا کہ ان کی حکومتوں نے انہیں کہا ہے کہ فارم بھریں اور رفح کراسنگ پر انتظار کریں ۔انہیں ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے اور وہ ابھی تک انتظار کر رہےہیں ۔جب کہ کچھ کو بمباری کا سامنا بھی ہو چکا ہے۔
ایک او ر شخص عبد العزیز شعبان نے کہا کہ ہم نے اتنا طویل انتظار کیا ہے کہ اب انہیں ہمیں یہاں سے ایمبولینسوں کے ذریعے نکالنا پڑے گا۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی عہدے داروں نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ان کا پورا خاندان رفح کراسنگ کے ذریعے وہاں سے نکل سکے گا کیوں کہ ان کا بیٹا امریکی شہری ہے ۔
مصر نے غزہ سے فرار ہونے والوں کے لیے رفح کراسنگ کے گیٹ کھولنے سے انکار کر دیا ہے کیوں کہ ایک تو وہ نہیں چاہتا کہ اسے اسرائیل کی کی جانب سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی میں مدد کرتے ہوئے دیکھا جائے۔ دوسرا وہ اپنی سرحدوں کے اندر پناہ گزینوں کا ایک بڑا بحران بھی نہیں چاہتا ۔
جرمنی کے شہر ایسن کے ایک 48 سالہ سیکیورٹی گارڈ محمود سرحان نے کہا ، ہمیں لگتا ہے کہ ہم سیکنڈ کلاس شہری ہیں ۔ وہ جنگ سے قبل شمالی جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں اپنی بیمار ماں سے ملنے لگ بھگ تیس سال میں پہلی بار غزہ کی پٹی آئے تھے ۔
سرحان نے کہا کہ وہ رفح میں سڑک پر سو رہے ہیں کہ کہیں کراسنگ بغیر اطلاع کے نہ کھل جائے۔اس نے مغربی حکومتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ، وہ یوکرین میں دنیا کے ہر حصے میں جہاں ان کے شہری خطرے میں ہوتے ہیں ان کی مدد کرتی ہیں لیکن غزہ میں نہیں کرتیں ۔
نیو یارک کے ایک 76 سالہ ڈاکٹر نے بائیڈن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ، وہ اسرائیل کو ہتھیار دینے کی کوشش میں اتنے مصروف ہیں کہ وہ یہاں امریکیوں کو پانی تک نہیں پہنچا سکتے یا انہیں یہاں سے باہر نہیں نکال سکتے ۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق حال ہی میں متعین کیے گئے خصوصی سفیر ڈیوڈ سیٹر فیلڈ منگل کو اسرائیل میں تھے اور امریکی شہریوں اور دوسرے دوہری شہریت کے حامل افراد اور انٹر نیشنل اداروں کے ملازمین کے لیے رفح کو کھولنے کے لیے اسرائیل ، مصر اور اقوام متحدہ سے بات چیت میں مصروف تھے۔
ابو سپیتان نے جو وسطی غزہ میں اپنی بہن کے گھر میں ٹھہرےہوئے ہیں ، بتایا کہ کئی دن تک چائے ، ڈبل روٹی اور پیاز پر گزار ہ کرنے کے بعد وہ اب ڈی ہائیڈریٹ اور بری طرح تھک چکے ہیں ۔ ان کی بہن کے گھر میں کوئی جنریٹر نہیں ہے اور صرف ایک سولر فون چارجر ہے اور ان کا نیو یارک اور بوسٹن میں اپنی پریشان فیملی سے رابطہ بہت مشکل ہے۔
انہوں نے اس سرحد سے جو امریکہ ، کینیڈا ، جرمنی ، سویڈن اور متعدد دوسرے ملکوں کے فلسطینیوں سے بھری ہوئی تھی جن میں سے کچھ زخمی تھے ، کہا کہ ہم یہاں پھنس کر رہ گئے ہیں ، ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں ہے سوائےا نتظار کے ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ اگر آپ کو کوئی خبر ملے تو مجھے بتائیے گا۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)
فورم