کراچی —
جسم پر میلے کپڑے اور پاؤں میں ٹوٹی ہوئی چپل یہ حال ہے کراچی کی سڑک پر رہنے والے16 سالہ ندیم کا جس کے پاس اپنے ہوتے ہوئے بھی ساتھ نہیں ہیں ندیم بھی انھی بچوں میں شمار ہوتا ہے جنھیں توجہ اور پیار نہ مل سکا،ندیم کے ماں باپ فوت ہونےکےبعد اسکے بڑے بھائی کا گھر ہی اسکا آخری ٹھکانہ تھا مگر بھائی اور بھابھی کے مظالم نے اس کا وہ آخری ٹھکانہ بھی اس سے چھین لیا اور اس کو گھر سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔
ندیم سندھ کے شہر لاڑکانہ کا رہائشی ہے جو چھپ چھپاکر بغیر ٹکٹ کے ریل میں سوار ہو کر کراچی آگیا مگر یہاں بھی سڑکوں کی دھول ہی اس کا مقدر بنی۔
اسی طرح نو عمر زاہد بھی سڑک پر ہی رہتا ہے۔ زاہد نے وائس آف امریکہ کو اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ "میں کیماڑی کے سمندر میں مچھیروں کی مدد کرتا ہوں، جس کے مجھے کچھ پیسے مل جاتے ہیں اور وہ پیسے سے کھانا کھاکر سڑک پر ہی سوجاتا ہوں"۔
16 سالہ زاہد نے کہا کہ اس کا گھر کراچی میں ہی ہے مگر اس کے والد کی جانب سے اسے صرف جھڑکیوں اور ڈانٹ ڈپٹ کے سوا کچھ نہیں ملتا جب تک والدہ زندہ تھی وہ یہ برداشت کرلیتا مگر والدہ کے انتقال کے بعد اس نے گھر چھوڑدیا اور سڑکوں پر رہنےلگا۔
ہمارے معاشرے میں ندیم اور زاہد جیسے بچوں کی کمی نہیں جو گھریلو تشدد اور بےجا مارپیٹ سے باغی ہوکر گھر سے فرار کاراستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ پھر سڑک کی دھول اور معاشرے کی تلخیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 12 اپریل کو "اسٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن" منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں 20 کروڑ کے لگ بھگ بچے سڑکوں پر رہتے ہیں جبکہ صرف پاکستان کی بات کیجائے تو ملک بھر میں 30 ہزار سے زائد بچے گلی، کوچوں اور سڑکوں پر رفیوجی کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بچے مزدوری کرتے،سڑکوں پر بھیک مانگتے، ٹریفک سگنل پر ننھے ہاتھوں سے گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے سموسے اور پھول بیچتے نظر آتے ہیں۔
کراچی میں قائم نجی ادارے اسٹریٹ چلڈرن سینٹر انیشیٹر کے صدر رانا آصف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سڑک پر رہنےوالے بچوں کی تعداد میں کمی کےبجائے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ’’ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کو ماں باپ کے حوالے کردیں۔گھر سےفرار ہونےوالے بچے تو چائلڈ لیبری کرکے کمالیتے ہیں مگر چھوٹی بچیاں جسم فروشی والےمافیا کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔‘‘
’’اسٹریٹ چلڈرن‘‘ میں زیادہ تر تعداد گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کی ہے مگر سڑکوں پر رہنےوالے تمام بچے لاوارث نہیں ہوتے ان میں بیشتر بچے غریب ماں باپ کے ہوتے ہیں اور ان غریب افراد کیلئے انکے بچے معاش کا ذریعہ ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے بچوں سے بہت سی جگہوں پر کام کروایا جاتا ہے ٹیکسٹائل فیکٹریوں اور ماہی گیری کے شعبے میں بھی ان گنت بچے کام کررہے ہیں۔غریب ماں باپ بچوں سے کچرہ چنواتے ہیں اور سڑکوں پر بھیک تک منگواتے ہیں۔
رانا آصف بتاتے ہیں کہ 1995 میں قانون بنایا گیا تھا جس میں بچوں سے بھیک منگوانا جرم قراردیاگیا تھا مگر اس پر آج تک کوئی عمل نہ ہوسکا۔
کراچی شہر کے بیشتر علاقوں میں موجود اسٹریٹ چلڈرن دوسرے شہروں سے ماں باپ کی جانب سے پیسے کمانے کی غرض سے بھیجےجاتے ہیں جن کو کام تو مل جاتا ہے مگر ان کا ٹھکانا کوئی نہیں ہوتا اس لئے یہ سڑک پر کام کرکے وہیں سوجاتے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں اسٹریٹ چلڈرن کی حالات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ،گزشتہ حکومتی دور میں بھی ان بچوں کے حقوق کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا جبکہ اسٹریٹ چلڈرن کے عالمی دن پر نگراں حکومت کی جانب سے بھی کوئی بیان تک سامنے نہیں آیا۔
رانا اصف نے بتایا کہ ان بچوں کا دوسرا اہم مسئلہ قانونی حق کا بھی ہے ایسے بچو ں کے ساتھ ہونےوالے جرائم و زیادتی کے واقعات کی رپورٹ تک درج نہیں ہوسکتی کیونکہ ان کے پاس کسی قسم کی شناخت نہییں ہوتی ۔ ’’حکومت سے مطالبہ ہے کہ ایسے بچوں کو شناخت فراہم کرے تاکہ آئندہ زندگی میں انھیں وہ مقام مل جائے جو ہر شہری کا حق ہے۔‘‘
تحقیق کے مطابق سڑکوں پر آنےوالے 94 فیصد بچے اور صرف 4 فیصد بچیاں ہیں ان میں سے 56 فیصد بچے گھریلو تشدد کے باعث گھر سے باغی ہوکر بھاگ نکلتے ہیں جبکہ 22 فیصد بچے مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں سختی و تشدد کے باعث بھاگ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں ۔
سڑک پر رہنےوالے بچوں سے زیادتی کے واقعات کوئی نئے نہیں جنسی، ذہنی، جسمانی اور جذباتی تشدد کا شکار بچوں کو معاشرے کی تلخیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
کام کرنے والی جگہ پر موجود افراد، پولیس اہلکاروں اور سیکیورٹی گارڈ اکثر ایسے بچوں کوبا آسانی جنسی زیادتی کا نشانہ بنالیتے ہیں۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ سڑک پر رہنےوالے 63 فیصد بچے جنسی زیادتی کے باعث ایڈز اور ہیپاٹائٹس سمیت دیگر خطرناک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ندیم سندھ کے شہر لاڑکانہ کا رہائشی ہے جو چھپ چھپاکر بغیر ٹکٹ کے ریل میں سوار ہو کر کراچی آگیا مگر یہاں بھی سڑکوں کی دھول ہی اس کا مقدر بنی۔
اسی طرح نو عمر زاہد بھی سڑک پر ہی رہتا ہے۔ زاہد نے وائس آف امریکہ کو اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ "میں کیماڑی کے سمندر میں مچھیروں کی مدد کرتا ہوں، جس کے مجھے کچھ پیسے مل جاتے ہیں اور وہ پیسے سے کھانا کھاکر سڑک پر ہی سوجاتا ہوں"۔
16 سالہ زاہد نے کہا کہ اس کا گھر کراچی میں ہی ہے مگر اس کے والد کی جانب سے اسے صرف جھڑکیوں اور ڈانٹ ڈپٹ کے سوا کچھ نہیں ملتا جب تک والدہ زندہ تھی وہ یہ برداشت کرلیتا مگر والدہ کے انتقال کے بعد اس نے گھر چھوڑدیا اور سڑکوں پر رہنےلگا۔
ہمارے معاشرے میں ندیم اور زاہد جیسے بچوں کی کمی نہیں جو گھریلو تشدد اور بےجا مارپیٹ سے باغی ہوکر گھر سے فرار کاراستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ پھر سڑک کی دھول اور معاشرے کی تلخیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 12 اپریل کو "اسٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن" منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں 20 کروڑ کے لگ بھگ بچے سڑکوں پر رہتے ہیں جبکہ صرف پاکستان کی بات کیجائے تو ملک بھر میں 30 ہزار سے زائد بچے گلی، کوچوں اور سڑکوں پر رفیوجی کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بچے مزدوری کرتے،سڑکوں پر بھیک مانگتے، ٹریفک سگنل پر ننھے ہاتھوں سے گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے سموسے اور پھول بیچتے نظر آتے ہیں۔
کراچی میں قائم نجی ادارے اسٹریٹ چلڈرن سینٹر انیشیٹر کے صدر رانا آصف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سڑک پر رہنےوالے بچوں کی تعداد میں کمی کےبجائے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ’’ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کو ماں باپ کے حوالے کردیں۔گھر سےفرار ہونےوالے بچے تو چائلڈ لیبری کرکے کمالیتے ہیں مگر چھوٹی بچیاں جسم فروشی والےمافیا کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔‘‘
’’اسٹریٹ چلڈرن‘‘ میں زیادہ تر تعداد گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کی ہے مگر سڑکوں پر رہنےوالے تمام بچے لاوارث نہیں ہوتے ان میں بیشتر بچے غریب ماں باپ کے ہوتے ہیں اور ان غریب افراد کیلئے انکے بچے معاش کا ذریعہ ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے بچوں سے بہت سی جگہوں پر کام کروایا جاتا ہے ٹیکسٹائل فیکٹریوں اور ماہی گیری کے شعبے میں بھی ان گنت بچے کام کررہے ہیں۔غریب ماں باپ بچوں سے کچرہ چنواتے ہیں اور سڑکوں پر بھیک تک منگواتے ہیں۔
رانا آصف بتاتے ہیں کہ 1995 میں قانون بنایا گیا تھا جس میں بچوں سے بھیک منگوانا جرم قراردیاگیا تھا مگر اس پر آج تک کوئی عمل نہ ہوسکا۔
کراچی شہر کے بیشتر علاقوں میں موجود اسٹریٹ چلڈرن دوسرے شہروں سے ماں باپ کی جانب سے پیسے کمانے کی غرض سے بھیجےجاتے ہیں جن کو کام تو مل جاتا ہے مگر ان کا ٹھکانا کوئی نہیں ہوتا اس لئے یہ سڑک پر کام کرکے وہیں سوجاتے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں اسٹریٹ چلڈرن کی حالات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ،گزشتہ حکومتی دور میں بھی ان بچوں کے حقوق کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا جبکہ اسٹریٹ چلڈرن کے عالمی دن پر نگراں حکومت کی جانب سے بھی کوئی بیان تک سامنے نہیں آیا۔
رانا اصف نے بتایا کہ ان بچوں کا دوسرا اہم مسئلہ قانونی حق کا بھی ہے ایسے بچو ں کے ساتھ ہونےوالے جرائم و زیادتی کے واقعات کی رپورٹ تک درج نہیں ہوسکتی کیونکہ ان کے پاس کسی قسم کی شناخت نہییں ہوتی ۔ ’’حکومت سے مطالبہ ہے کہ ایسے بچوں کو شناخت فراہم کرے تاکہ آئندہ زندگی میں انھیں وہ مقام مل جائے جو ہر شہری کا حق ہے۔‘‘
تحقیق کے مطابق سڑکوں پر آنےوالے 94 فیصد بچے اور صرف 4 فیصد بچیاں ہیں ان میں سے 56 فیصد بچے گھریلو تشدد کے باعث گھر سے باغی ہوکر بھاگ نکلتے ہیں جبکہ 22 فیصد بچے مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں سختی و تشدد کے باعث بھاگ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں ۔
سڑک پر رہنےوالے بچوں سے زیادتی کے واقعات کوئی نئے نہیں جنسی، ذہنی، جسمانی اور جذباتی تشدد کا شکار بچوں کو معاشرے کی تلخیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
کام کرنے والی جگہ پر موجود افراد، پولیس اہلکاروں اور سیکیورٹی گارڈ اکثر ایسے بچوں کوبا آسانی جنسی زیادتی کا نشانہ بنالیتے ہیں۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ سڑک پر رہنےوالے 63 فیصد بچے جنسی زیادتی کے باعث ایڈز اور ہیپاٹائٹس سمیت دیگر خطرناک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔