حقوقِ انسانی کے عالمی دن کے موقعے پر مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں پیر کو عام ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے لئے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے کی تھی اور مختلف ہم خیال سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں اور سول سوسائٹی گروپس نے اس کی توثیق کی تھی۔ ان سب کا کہنا ہے کہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال بتدریج بگڑ رہی ہے۔ اس کے لئے وہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کو موردِ الزام قرار دے رہے ہیں جو ریاست میں گزشتہ تقریبا" تین دہائیوں سے جاری شورش اور آزادی کے لئے چلائی جارہی مسلح تحریک کو دبانے کے لئے ایک سخت گیر فوجی مہم چلارہے ہیں۔
اتحاد نے پیر کو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کو ایک خط روانہ کیا جس میں ان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ "اپنی منصبی اور آئینی ذمہ داریوں کے پیشِ نظر کشمیری عوام کو تحفظ فراہم کرانے اور ان کو اپنا پیدائشی حق، حقِ خود ارادیت دلوانے کے لیے اپنا موثر اور نتیجہ خیز کردار ادا کریں تاکہ دیرینہ مسئلہ کشمیر کا کشمیری عوام کی خواہشات اور اُمنگوں کے مطابق دیر پا حل نکالا جاسکے"۔
اتحاد میں شامل ایک لیڈر اور سرکردہ مذہبی راہنما میرواعظ عمر فاروق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگرچہ اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے کشمیر میں پائی جانے والی صورتِ حال پر حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی ادارہ اس حوالے سے عملی طور پر"موثر اور کارگر اقدامات" بھی اٹھائے۔
حقوقِ بشر کے عالمی دن کے موقعے پر ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر میں شورش کے دوران لاپتہ ہونے والے افراد کے رشتے داروں نے دھرنا دیا اور ان کی بازیابی کا مطالبہ دہرایا۔ دھرنے کا اہتمام دی ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپئرڈ پرسنز یعنی لاپتہ ہونے والے افراد کے والدین کی انجمن نے کیا تھا جس کا کہنا ہے کہ گزشتہ تیس برس کے دوراں سرکاری دستوں نے آٹھ سے دس ہزار افراد کو حراست میں لینے کے بعد غائب کردیا ہے۔
اس موقعے پر اپنے خطاب میں ایسوسی ایشن کی سربراہ پروینہ آہنگر نے بتایا کہ لاپتہ افراد کے والدین اور دوسرے رشتے دار زندگی کی آخری سانس تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اُن کے بقول حکومت کی طرف سے کی جانے والی معاوضے، نوکریوں اور دوسری مراعات کی پیشکشیں انہیں اپنے عزیزوں کی بازیابی کا مطالبہ کرنے سے نہیں روک سکتی ہیں۔
بھارتی عہدیدار حفاظتی دستوں پر لگائے جانے والے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ ان سے انسانی حقوق کی پامالیاں سرزد ہورہی ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ریاست میں جاری شورش کو دبانے کے لئے حفاظتی دستوں کی طرف سے چلائی جارہی مہم کے دوران اگر ان میں سے کسی سے چوک یا قاعدے کی خلاف ورزی ہوجاتی ہے تو اُس کے خلاف فوری قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
البتہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ایشیاء واچ نے اپنی حالیہ رپورٹوں میں علاقے میں پائی جانے والی حقوقِ بشر کی مجموعی صورتِ حال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نئی دہلی پر اسے بہتر بنانے کے لئے زور دیا تھا۔
ان تنظیموں نے بھارتی حکومت سے خاص طور پر آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ یا افسپا نامی قانون کو واپس لینے کا مطالبہ دہرایا تھا۔ اس قانون کو ریاست میں 28 سال پہلے مقامی مسلمانوں کی طرف سے مسلح بغاوت کے آغاز پر لاگو کیا گیا تھا۔ حقوقِ بشر کی ان تنظیموں اور خود بھارت میں سرگرم انسانی حقوق کارکنوں کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کے مرتکب فوجی سزا سے بچنے کے لئے افسپا کی آڑ لیتے چلے آئے ہیں۔
بھارتی عہدیدار کہتے ہیں کہ اس قانون کے باوجود درجنوں ایسے فوجیوں اور دوسرے حفاظتی اہلکاروں کو سزائیں دی گئی ہیں جنہوں نے شورش سے نمنٹنے کے دوران اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا یا ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کی تھی۔
انسانی حقوق کا عالمی دن ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے- 69 سال پہلے آج ہی کے دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمی منشورمنظور کیا تھا۔
یہ منشور 30دفعات پر مشتمل ہے جو مذہب اور عقیدے، رنگ و نسل اور قوم و ملک کی تفریق کے بغیر انسانی زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی حقوق کا دفاع کرتا ہے-