رسائی کے لنکس

سندھ کابینہ نے طلبہ یونین کی بحالی کا بِل منظور کرلیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ حکومت نے صوبے میں طلبہ یونین پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا بل صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صوبائی کابینہ نے طلبہ یونینز کی بحالی کا مجوزہ بل بعض ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا ہے۔

وزیر اطلاعات سعید غنی کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے میں بل اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ضروری مشاورت کے بعد اسمبلی میں اتفاق رائے سے منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی جس کے بعد یہ صوبے میں قانون بن سکے گا۔

اسٹودنٹس ایکٹ 2019 کے تحت صوبے کے کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری تعلیمی ادارے میں طالب علموں کو اسٹوڈنٹس یونین بنانے کاحق ہو گا۔

بل میں اسٹوڈنٹ یونین کو تعلیمی سرگرمیاں روکنے، طلبہ یا طلبہ کے دیگر گروپس میں نفرت پھیلانے کو خلاف قانون قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ طلبہ یونین کے لئے اسلحہ رکھنا، اسلحے کا استعمال یا تعلیمی اداروں میں ہتھیار لانا بھی خلاف قانون ہو گا۔

بل کے مندرجات کے تحت اسٹوڈنٹس یونین تعلیمی ماحول کو بہتر کرنے، تعلیمی ادارے میں نظم و ضبط برقرار رکھنے اور غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے کام کریں گی۔

بل کے تحت طلبہ یونین 7 سے 11 ممبران پر مشتمل ہو گی جو طلبہ کے ووٹوں سے منتخب ہو گی۔ بل کابینہ سے منظوری کے بعد اب اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس کے بعد اسے مشاورت کے لئے صوبائی اسمبلی کی اسٹیڈنگ کمیٹی برائے قانون کو بھیجا جائے گا۔

اس فیصلے کا جہاں طلبہ تنظیموں کی جانب سے خیر مقدم کیا جا رہا ہے، وہیں سیاستدان اور تجزیہ کار بھی اسے گھٹن زدہ ماحول میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے سے تعبیر کر رہے ہیں۔

معروف سیاسی تجزیہ کار نذیر لغاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے اس فیصلے کو سراہا اور کہا کہ 35 سال قبل آمرانہ حکومت نے طلبہ تنظیموں پر جو پابندی عائد کی تھی، اس سے درحقیقت سیاست کی نرسریاں بند کر دی گئیں۔ ملک میں سیاسی لیڈر شپ میں آنے کے دو راستے ہیں۔ جن میں سے ایک جاگیردارانہ، خاندانی اور روایتی سیاست کا پس منظر رکھنے والے سیاست میں شامل ہوتے آئے ہیں، جب کہ دوسرے راستے کے ذریعے متوسط طبقے کے افراد، طلبہ تنظیموں یا پھر بلدیاتی اداروں میں سیاست سیکھنے کے بعد صوبائی اور قومی سطح پر نمودار ہوتے ہیں۔

نذیر لغاری کے مطابق جاگیردارانہ اور آمرانہ سوچ کے حامل افراد اور ارادے یہ نہیں چاہتے تھے کہ سیاست کی یہ نرسریاں پروان چڑھیں تاکہ ایسے لوگوں کا سیاست میں عمل دخل نہ ہو، جو تابعدارانہ اور سمجھوتے والی سیاست کی بجائے عوامی ایشوز پر سیاست کریں۔ حکمران طبقے کو سیاست میں ایسے افراد درکار ہوتے ہیں جو ان کے مفادات کی نگہبانی اور نگہداشت کر سکیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں ایسے لوگوں کو برسر اقتدار طبقہ باآسانی ہینڈل کر سکتا ہے۔

نذیر لغاری کے بقول طلبہ تنظیموں سے سیاست سیکھ کر آنے والے افراد عوام کے حقوق کے لئے کھڑے ہونے، اور اس پر بات کرنے میں ہچکچکاتے نہیں۔

انہوں نے اس خیال کو غلط قرار دیا کہ طلباء تنظیموں کے باعث دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طلباء تنظیموں میں دہشت گردی میں وہی جماعتیں اور لوگ ملوث ہوئے جنہیں طاقتور لوگوں اور اداروں کی چھتری مہیا ہوتی تھی۔

انہوں نے فیصلے کو شاندار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مستحکم ہوں گے اور اس کے دور رس نتائج مستقبل میں ہماری سیاست میں ظاہر ہوں گے۔

یاد رہے کہ طلبہ یونینز کی تین دہائیوں کے بعد بحالی کی باتیں حال ہی میں ملک کے 50 شہروں میں بیک وقت طلبہ تنظیموں کے احتجاج اور مظاہروں کے پس منظر میں شروع ہوئی ہیں جس پر وزیر اعظم عمران خان سمیت تقریبا تمام جماعتوں اور سیاسی قائدین، ان تنظیموں کی بحالی کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال یہ ظاہر کرتی ہے کہ گزشتہ 4 دہائیوں سے لوگ جس دباؤ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار تھے، اب اس سے باہر آنے کے لئے سیاسی آزادیوں کے حصول کی جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں سیاسی شعور اور دیگر بےجا پابندیوں کو شکست دی جا رہی ہے، جس نے برسوں ان معاشروں پر بزور طاقت حکمرانی کی ہے۔

طلبہ کی ایسی تحریکوں کی لہر لاطینی امریکہ سمیت ایشیا کے کئی ممالک میں دیکھی جا رہی ہیں، جہاں سیاست کو شجر ممنوعہ بنا دیا گیا تھا۔ سیاسی پنڈتوں کے خیال میں طلبہ تنظیموں کا احیاء ان ممالک بالخصوص پاکستان میں، معاشرے میں پیدا ہونے والے مد و جزر کو ظاہر کر رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG