سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر کو دارالحکومت کے ایک سخت سیکورٹی والے قیدخانے میں بند کر دیا گیا ہے، جس سے پانچ روز قبل فوج نے اُنھیں اقتدار سے ہٹا کر گھر میں نظر بند کر دیا تھا۔
برطرف کیے گئے صدر کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ 75 برس کے بشیر کو منگل کے روز خرطوم کے ’کوبر قیدخانے‘ میں بند کیا گیا ہے، جہاں اُنہیں سخت سیکورٹی کے حصار میں رکھا گیا ہے۔
گذشتہ جمعرات سے، جب سے ان کا تختہ الٹا گیا، وہ کسی عام مقام پر نظر نہیں آئے، جس سے قبل خوراک اور تیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کے معاملے پر کئی ماہ تک سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے جاری رہے۔
خرطوم میں فوج کے صدر دفتر کے باہر ہزاروں مظاہرین اب بھی جمع ہیں۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ سویلین قیادت میں عبوری حکومت تشکیل دی جائے۔ بغاوت کرنے والے لیڈروں نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ فوجی قیادت والی کونسل دو سال تک ملک کا نظام چلائے گی۔
افریقی یونین اور کئی مغربی ملکوں نے عبوری دور تیزی سے طے کرنے، سویلین قیادت کو اختیار دینے اور انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
دریں اثنا، جنوبی سوڈان کی کوردوفان اور بلو نائل کی ریاستوں میں باغی گروپ نے کہا ہے کہ وہ 31 جولائی تک مخاصمانہ کارروائیاں بند کر دیں گے۔ باغی رہنما، عبد العزیز آدم الہیلیو نے بتایا ہے کہ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ سوڈان میں اقتدار سویلین رہنماؤں کو دینے میں سہولت فراہم کی جا سکے۔
بشیر نے جون 1989 میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور 30 سال تک آمرانہ انداز سے ملک کا نظام چلایا۔ سوڈان کے ڈارفر علاقے میں سرزد ہونے والے مبینہ جنگی جرائم کے الزام پر ان کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ درج ہے، جہاں وہ مطلوب ہیں۔
فوجی کونسل نے کہا ہے کہ وہ سابق صدر کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے حوالے نہیں کرے گی۔