رسائی کے لنکس

برطانیہ میں وزارتِ عظمی کی دوڑ، بھارتی نژاد رشی سوناک مضبوط اُمیدوار


رشی سوناک مستعفی ہونے والے وزیرِ اعظم بورس جانسن کی کابینہ میں وزیرِ خزانہ تھے۔ برطانیہ میں وزیرِ اعظم اور نائب وزیرِ اعظم کے بعد وزیرِ خزانہ حکومت کا اہم ترین عہدہ تصور کیا جاتا ہے۔
رشی سوناک مستعفی ہونے والے وزیرِ اعظم بورس جانسن کی کابینہ میں وزیرِ خزانہ تھے۔ برطانیہ میں وزیرِ اعظم اور نائب وزیرِ اعظم کے بعد وزیرِ خزانہ حکومت کا اہم ترین عہدہ تصور کیا جاتا ہے۔

برطانیہ کے سابق وزیرِ خزانہ رشی سوناک کو ملک کے آئندہ وزیرِ اعظم کے مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی میں آئندہ وزیرِ اعظم کے لیے امیدواروں میں ان کو برتری حاصل ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کنزرویٹو پارٹی میں آئندہ وزیرِ اعظم کے امیدوار کے لیے بدھ کو رائے شماری ہوئی جس میں دو امیدواروں کے نام فہرست سے خارج ہوئے جب کہ چھ امیدوار انتہائی کم برتری کے ساتھ اگلے مرحلے تک پہنچ گئے ہیں۔

برطانیہ کی پارلیمان میں کنزرویٹو پارٹی کو برتری حاصل ہے اس لیے اس پارٹی کا سربراہ آئندہ کا وزیرِ اعظم ہوگا۔ ابتدائی مرحلے میں کنزرویٹو پارٹی اپنے سربراہ کا انتخاب کر رہی ہے جو آگے چل کر وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالے گا۔

اس رائے شماری میں بھارتی نژاد رشی سوناک کو برتری حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے ہی وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے والے بورس جانسن کی کابینہ سے استعفیٰ دیا تھا جس سے وزیرِ اعظم کے مستعفی ہونےکے لیے دباؤ بڑھ گیا تھا۔

رائے شماری میں رشی سوناک نے 88 ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ اس کے بعد دوسرے نمبر پر بورس جانسن کی کابینہ میں وزیرِ دفاع کے طور پر شامل پینی موڈنٹ نے 67 ووٹ حاصل کیے۔

سیکریٹری خارجہ لز ٹرس کو کنزرویٹو پارٹی کے 50 ارکان کی حمایت حاصل ہو سکی۔ باقی تین امیدوار بھی 30 سے زائد ووٹ حاصل کرکے اگلے مرحلے میں شامل ہو گئے ہیں۔

کنزرویٹو پارٹی کے وزارتِ عظمی کے چھ امیدواروں میں رشی سوناک کو برتری حاصل ہے۔
کنزرویٹو پارٹی کے وزارتِ عظمی کے چھ امیدواروں میں رشی سوناک کو برتری حاصل ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کی رائے شماری میں جو دو امیدوار باہر ہوئے ان میں 2019 میں بورس جانسن کے بعد دوسرے نمبر پر آنے والے جرمی ہنٹ اور وزیرِ خزانہ عراقی کرد نژاد ناظم الزھاوی شامل ہیں۔

برطانیہ کے دارالعوام یعنی ہاؤس آف کامنز کی 650 نشستوں میں سے 358 پر کنزرویٹو پارٹی کے ارکان منتخب ہوئے تھے جو کہ آئندہ وزیرِ اعظم کے امیدوار کے حتمی انتخاب کی رائے شماری میں حصہ لے رہےہیں۔

کنزرویٹو پارٹی کے ارکان کی رائے شماری کا ایک اور راؤنڈ جمعرات کو بھی ہوگا تاکہ جلد از جلد حتمی امیدوار کا فیصلہ کیا جا سکے اور جماعت کے سامنے آئندہ ہفتے تک آئندہ وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کو لایا جا سکے ۔

بورس جانسن گزشتہ ہفتے اس وقت وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا جب ان کی کابینہ کے کئی ارکان ایک کے بعد ایک مستعفی ہونا شروع ہو گئے تھے اور وزیرِ خزانہ رشی سوناک کے استعفے کے بعد بورس جانسن کو مستعفی ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔

واضح رہے کہ بورس جانسن کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی نے 2019 کے انتخابات میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی تھی جب کہ ان کی وزارتِ عظمیٰ ہی میں برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوا تھا۔

الیکشن شیڈول کے مطابق پانچ ستمبر تک بورس جانسن کی جگہ کنزرویٹو پارٹی کےنئے سربراہ کا اعلان کیا جانا ہے۔

رشی سوناک

بیشتر رپورٹس میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہےکہ رشی سوناک کنزرویٹو پارٹی کے ارکان کی حمایت کے حصول میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

رشی سوناک نے بھی اپنی وزارتِ عظمیٰ کی مہم کے آغاز پر اعلان کیا تھا کہ وہ لوگوں کا اعتماد بحال کرنا چاہتے ہیں، ملک کی معیشت کی تعمیر ان کا مقصد ہے جب کہ وہ ملک کو متحد کرنے کے خواہاں ہیں۔

رشی سوناک کی عمر 42 برس ہے۔ ان کی پیدائش برطانیہ میں ہی ہوئی ہے۔ ان کے والد برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز میں خدمات انجام دیتے تھے جب کہ والدہ ایک مقامی فارمیسی میں کام کرتے تھیں۔

بھارتی خبر رساں ادارے 'انڈین ایکسپریس' کے مطابق رشی سوناک کے دادا دادی کی پیدائش پنجاب میں ہوئی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے مشرقی افریقہ ہجرت کی اور 1960 کی دہائی میں وہ برطانیہ منتقل ہوئے۔ جہاں انہوں نے مختلف روزگار اختیار کیے۔

رشی سوناک نے برطانیہ کے اعلیٰ ترین نجی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ پھر آکسفرڈ یونیورسٹی اور اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں بھی زیرِ تعلیم رہے۔ جہاں سے انہوں نے ایم بی اے کیا۔

انہوں نے 2009 میں اکشتہ مورتی سےشادی کی جو کہ آئی ٹی کمپنی 'انفوسس' کے شریک بانی اور ارب پتی بھارتی کارباری شخصیت این آر نارائن مورتی کی بیٹی ہیں۔

رشی سوناک کا سیاسی کریئر 2015 میں شروع ہوا جب کہ وہ یارک شائر میں رچمنڈ سے کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر برطانوی دارالعوام کے رکن منتخب ہوئے۔انہوں نے برطانیہ کے یورپ سے الگ ہونے کی حمایت کی تھی اور سابق وزیرِ اعظم تھریسامے کی کابینہ میں جونیئر وزیر بنے تھے۔

بعد ازاں 2019 کے انتخابات سے قبل انہوں نے بورس جانسن کے وزارتِ اعظمیٰ کے امیدوارکے طور پر حمایت کی تھی۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد بورس جانسن نے رشی سوناک کو ملک کے خزانے کا نگران یعنی چیف سیکریٹری بنایا جب کہ 2020 میں کابینہ میں رد و بدل ہونے پر رشی سوناک وزیرِ خزانہ بن گئے تھے۔

برطانیہ میں وزیرِ اعظم اور نائب وزیرِ اعظم کے بعد وزیرِ خزانہ حکومت اور کابینہ میں سب سے اہم ترین عہدہ کہلاتا ہے۔

پینی موڈنٹ

یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وزیر برائے تجارت 49 سالہ پینی موڈنٹ بھی وزارتِ عظمی کی مضبوط امیدوار ہو سکتی ہیں۔

ان کو سابق وزیرِ اعظم بورس جانسن کی کابینہ میں سینئر وزیر کا عہدہ نہیں مل سکا تھا اور وہ جونیئر وزیر کے طور پر کابینہ کا حصہ ہیں۔اس سے قبل انہوں نےتھریسا مے کی کابینہ میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔

انہوں نے سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خاندان کی پہلی فرد تھیں جنہوں نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ جب ان کی عمر صرف 15 برس تھی اس وقت ان کی والدہ کا کینسر کے سبب انتقال ہو گیا تھا۔جب کہ ان کے والد کو بھی کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔انہوں نے گزر بسر کے لیے کرتب دکھانے والے جادوگر کے معاون کے طور بھی کام کیا تھا۔

سال 2010 میں ان کا انتخاب پارلیمان میں ہوا تھا جب کہ 2014 میں پہلی بار وہ وزیر بنی تھیں ۔ اس وقت انہیں مقامی حکومتوں کی وزارت دی تھی ۔ بعد ازاں وہ دیگر وزارتوں پر بھی تعینات رہیں۔

لز ٹرس

پارٹی کی رائے شماری میں کابینہ میں وزیر خارجہ کے طور پر شامل لز ٹرس 50 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہی ہیں۔

جس وقت وزیرِ اعظم بورس جانسن نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اس وقت لز ٹرس انڈونیشیا میں جی ٹوئنٹی اجلاس میں شریک تھی، انہوں نے اپنا دورہ مختصر کیا اور ملک واپس آئیں تاکہ وزارتِ عظمی کی دوڑ کا حصہ بن سکیں۔

آکسفرڈ میں 1975 میں پیدا ہونے والی لز ٹرس 2010 سے پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔2012 میں پہلی بار ان کو جونیئر وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل کیا گیا تھا۔

وہ سابق وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون، تھریسا مےاور بورس جانسن کی کابینہ کا حصہ رہی ہیں۔

کیمی بیدنوک

کیمی بیدنوک کے والدین نائیجیریا سے برطانیہ آئے تھے البتہ ان کی پیدائش 1980 میں برطانیہ میں ہی ہوئی ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف لندن سمیت دیگر تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ اور آئندہ وزیرِ اعظم بننے کے لیے رائے شماری میں ان کو 40 ووٹ ملے ہیں۔

وہ دو بار لندن کی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں جب کہ 2017 سے پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔

بورس جانسن نے ان کو 2019 میں پہلی بار خواتین اور بچوں کے بہبود کے لیے پارلیمانی انڈرسکیریٹری مقرر کیا تھا۔ بعد ازاں ان کو دیگر محکموں کی ذمہ داری بھی دی گئی۔

ٹام ٹوگینڈہاٹ

ٹام ٹوگینڈہاٹ کو رائے شماری میں37 ووٹ ملے اور وہ دوسرے مرحلے کی رائے شماری کے لیے منتخب ہونے والے چھ امیدواروں میں شامل ہیں۔

ان کے والد ہائی کورٹ کے جج تھے۔ ٹام یوگینڈ ہاٹ نے اسلامی اسٹڈیز میں ماسٹر ز کیا ہے جب کہ یمن میں قیام کے دوران عربی بھی سیکھی ہے۔

ٹام ٹوگینڈہاٹ نے فوج میں 2003 سے 2013 تک دس برس خدمات انجام دی ہیں۔ اس دوران وہ افغانستان اور عراق کی جنگ میں بھی شریک رہے ہیں۔ ان کو فوجی اعزازات بھی دیے گئے ہیں۔

وہ فوج سے علیحدگی کے دو برس بعد 2015 میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے اور اب بھی ایوان کے رکن ہیں۔

ان کو 2017 میں خارجہ امور کی سلیکٹ کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا اور اب بھی وہ اسی عہدے پر موجود ہیں۔

سویلا براورمن

سویلا کے والدین کا تعلق بھی بھارت سے تھا البتہ 1960 میں ان کے والد کینیا اور والدہ موریشس سے برطانیہ منتقل ہوئے تھے۔ان کی پیدائش 1980 میں برطانیہ میں ہی ہوئی تھی۔

سویلا براورمن کو رائے شماری میں منتخب ہونے والے امیدواروں میں سب سے کم 32 ووٹ ملے ہیں۔

وہ 2015 سے برطانیہ کے پارلیمان کی رکن ہیں۔ 2018 میں جنوری سے نومبر تک وہ پارلیمانی انڈر سیکریٹری رہ چکی ہیں جب کہ ستمبر 2021 سے وہ انگلینڈ اور ویلز کی اٹارنی جنرل اور شمالی آئرلینڈ کی ایڈووکیٹ جنرل کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG