سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اصغر خان کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ہوئی۔ کیس کے آغاز میں ہی چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل پر جمعرات کو عدالت میں پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کابینہ کے فیصلے سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں کابینہ نے عمل درآمد کا فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔
جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ پیسے وصول کرنے کا کیا طریقہ کار ہے ؟ اور ساتھ ہی چیف جسٹس نے پیسے وصول کرنے والے نواز شریف جاوید ہاشمی سمیت 21 سولین کو نوٹس جاری کر دئیے۔
عدالت نے کیس سے متعلقہ آرمی افسران، ڈی جی نیب اور ڈی جی ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کر دئیے۔ عدالت نے کیس کی سماعت6 جون 2018 تک ملتوی کر دی۔
اس سے قبل یکم جون کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اصغر خان عمل درآمد کی سماعت کے دوران پیش اٹارنی جنرل کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور باور کرایا کہ اتنی اہم نوعیت کے معاملے کی سماعت تھی لیکن اٹارنی جنرل کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران عدالتی استفسار پر وفاقی حکومت کے وکیل ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے مثبت فیصلہ کرلیا ہے اور اٹارنی جنرل پاکستان خود پیش ہو کر آگاہ کریں گے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل پاکستان چیف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل آفس کی یہ کارکردگی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے افسوس کا اظہار کیا کہ وفاقی کابینہ نے اصغر خان کیس عمل درآمد کے معاملہ پر کوئی فیصلہ نہیں کیا اور ایک سب کمیٹی بناکر حکومت بھاگ گئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے قرار دیا کہ کئی سالوں سے اصغر خان کیس پڑا ہے کیا کابینہ کا یہ کام ہوتا ہے؟
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو اصغر خان کیس میں ہفتہ کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہفتہ کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اہم شخصیات کو سیکیورٹی دینے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر پنجاب پولیس کی جانب سے سیاستدانوں کو دی گئی سیکیورٹی سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ پولیس رپورٹ پر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ کتنے لوگوں کو سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے؟ اس پر ڈی آئی پنجاب پولیس عبدالرب نے بتایا کہ31 سیاستدانوں کو سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔ جس پر ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے عدالت سے استدعا کی کہ سیکیورٹی دئیے جانے والوں کے نام ایک مرتبہ پھر پڑھ لیے جائیں۔
چیف جسٹس نے فہرست دیکھ کر کہا کہ نوازشریف، شہبازشریف، احسن اقبال، ایازصادق اور زاہد حامد کی سیکیورٹی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن رانا ثناء، مریم اورنگزیب، انوشہ رحمان، عابد شیر اور احسن اقبال کے بیٹےکو سیکیورٹی کس لیے دی جارہی ہے۔
"یہ لوگ ایک طرف عدلیہ کوگالیاں نکالتے ہیں اور دوسری طرف سیکیورٹی مانگتے ہیں، آئی جی صاحب آپ نےعدلیہ مخالف بیانات دینے والوں کوسیکیورٹی فراہم کر رکھی ہے"۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ "ایک سیکیورٹی اہلکار25 ہزار روپے میں پڑتا ہے اور ایک سیاستدان کم از کم 60ہزار روپے میں، قوم کا پیسہ ہے، اس طرح لٹانے کی اجازت نہیں دیں گے"۔
آٓئی جی پنجاب پولیس کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز کو چار سیکیورٹی اہلکار دئیے گئے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مجھے کتنی سیکیورٹی دی گئی ہے؟
"آپ نے مجھے حمزہ شہباز کے برابر کی سیکیورٹی دی ہے؟ آپ نے تو ججز اور سپریم کورٹ کے ججز کی سیکیورٹی سے انکار کردیا تھا"۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کو سیاستدانوں سمیت اہم شخصیات کی سیکیورٹی پر لگا دیا گیا ہے، کیا پولیس کا صرف یہی کام رہ گیا ہے؟ جسٹس ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ سندھ میں کتنے لوگوں کو سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ صوبہ سندھ میں چار ہزار لوگوں کو سیکیورٹی فراہم کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے چار ہزار لوگوں پر پولیس کو تعینات کر رکھا ہے، میں کراچی آرہا ہوں کمیٹی کو بلا لیں۔
عدالت نے چاروں صوبوں میں اہم شخصیات کودی گئی سیکیورٹی کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سیکیورٹی دینے والی کمیٹی کے تمام ارکان کو ہفتہ کی رات آٹھ بجے تک طلب کر لیا ہے۔
لگژری گاڑیوں کے کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے غیر استحقاق شدہ گاڑیوں کو ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے وزرا اور سرکاری افسران کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کا تمام ریکارڈ پانچ جون کو طلب کر لیا۔
سماعت کے آغاز پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم نے لگژری گاڑیوں کی منظوری دی اور وزیراعظم کی ہدایت پر یہ گاڑیاں آگے افسران اور وزراء کو دی گئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کی منظوری نہیں ہوگی یہ فواد حسن فواد نے دی ہوں گی۔ وزیراعظم کے دستخط سے ایک بھی گاڑی نہیں دی گئی۔ فوادحسن فواد کیسے وزیراعظم کی جگہ گاڑیاں دیتا رہا؟
چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ عابد شیر علی نے کیوں گاڑی لی؟ اس حوالے سے پانچ جون کو تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے اور چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
چیف سیکرٹری پنجاب زاہد گوندل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے بھی گاڑیاں واپس لے لی ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان گاڑیوں کو کھڑا کرکے برباد نہیں ہونے دیں گے، یہ گاڑیاں نگران حکومت کے حوالے کی جائیں گی۔ عدالت نے بلوچستان سے موصول ہونے والی رپورٹ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے غیر استحقاق شدہ گاڑیوں کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا۔