|
عدالتی اُمور میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ریاستی ادارے اگر جارح ہو جائیں تو عوام ان کے ساتھ لڑائی نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رُکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق منگل کو دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انٹیلی جینس ادارے وزیرِ اعظم کے ماتحت ہوتے ہیں۔ یہ اگر کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمے دار وزیرِ اعظم اور کابینہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سچ سب کو پتا ہوتا ہے لیکن بولتا کوئی نہیں اور جو بولتے ہیں ان کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو چھ ججز کے ساتھ ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر اثر انداز ہونے اور مبینہ مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
خط لکھنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
اس معاملے پر چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی جس کے بعد وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔
انکوائری کمیشن کی سربراہی سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی کو سونپی گئی تھی جنہوں نے بعدازاں اس سے معذرت کر لی تھی۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سات رُکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
منگل کو سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ "میں عدلیہ کی آزادی چاہتا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کرے۔"
چیف جسٹس نے کہا کہ پریشر دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے، بیوروکریسی میں فون نہیں آجاتے یہ کر دو وہ کردو۔ کچھ لوگ فون پر کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے اور او ایس ڈی بن جاتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تو بہت سارے اختیارات موجود ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز کی تعیناتی کے لیے جب خفیہ اداروں سے رپورٹس منگواتے ہیں تو ایک طرح سے اُنہیں خود ہی مداخلت کا موقع دیتے ہیں۔ جب کیسز میں مانیٹرنگ جج لگوائے جائیں گے اور جے آئی ٹیز میں خفیہ اداروں کو شامل کیا جائے گا تو اُنہیں مداخلت کا موقع ملے گا۔
دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ایک جج کو پتا ہو کہ پورا ادارہ ساتھ کھڑا ہو گا وہ چیتے کی طرح کام کرے گا۔ مگر انسانی فطرت ہے کہ ہر جج اتنا دلیر نہیں ہوتا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جینس اور انٹیلی جینس بیورو کس قانون کے تحت بنی ہیں؟ ہمیں آئندہ سماعت پر ان ایجنسیوں کے قانون بتائیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تین ہائی کورٹس کے ججز کے خطوط پڑھے اور تینوں کہہ رہے کہ مداخلت ہے۔ کیا کسی ایک ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ کی بڑی مہربانی آپ یہ کیس نہ چلائیں؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہمیں عدالتی آرڈر کے ذریعے بینچ سے علیحدہ کیا گیا۔ دھرنا کیس میں پہلی بار میں نے لکھ کر دیا کہ جسٹس فیض حمید اس کے پیچھے ہیں۔ لیکن اس پر حکومت نے کیا کیا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کی تجاویز
سماعت کے دوران عدالتی اُمور میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں کی تجاویز بھی پیش کی گئیں۔
چیف جسٹس کے حکم پر کمرۂ عدالت میں اٹارنی جنرل نے تجاویز پڑھیں جن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے حکم نامے کو ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کو اختیارات کی تقسیم کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔ ججز میں کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سوشل میڈیا اور میڈیا پر تاثر دیا گیا کہ ججز تقسیم ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ اور ضلعی عدلیہ کے ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ ججز کے ساتھ ایجنسیوں کے ممبران کی ملاقاتوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
اگر کسی جج کے ساتھ کوئی مداخلت ہوئی ہے تو وہ فوری بتائے۔ ججز کی شکایت کے لیے سپریم اور ہائی کورٹس میں مستقل سیل قائم کیا جائے، شکایات پر فوری قانون کے مطابق فیصلے صادر کیے جائیں۔
ہائی کورٹ کے ججز کی بھجوائی گئی تجاویز میں کہا گیا کہ وہ ایجنسیز یا انفرادی افراد جو ججز یا ان کے اہلِ خانہ کی فون ٹیپنگ یا ویڈیو ریکارڈنگ میں ملوث ہیں ان کی نشاندہی کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
اسٹیٹ ایجنسیز اگر ضلعی یا اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے امور میں مداخلت کریں یا بلیک میل کرے تو جج کو توہینِ عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے، چیف جسٹس اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز اور یا کوئی جج سی سی ٹی وی ریکارڈنگ حاصل کرے جہاں اس کے امور میں مداخلت ہوئی ہو۔
ججز نے کہا کہ ایجنسیوں کی مداخلت ایک کھلا راز ہے، اگر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز خود توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں چلاتے تو ہائی کورٹ کو رپورٹ کیا جائے۔
ہائی کورٹ پانچ ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دے کر فیصلہ کرے، اگر ہائی کورٹ کا کوئی جج رپورٹ کرے تو چیف جسٹس پاکستان کے نوٹس میں لایا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان اس معاملے کو دیکھیں، ایک جج شکایت کے ساتھ اپنا بیان حلفی بھی دے۔ بیان حلفی دینے والے جج پر جرح نہیں ہو سکتی۔ اگر ججز کی جانب سے شکایت دی جائے تو اسے نشانہ نہ بنایا جائے۔
سپریم کورٹ پاکستان سے امید ہے کہ وہ پورا طریقۂ کار طے کرے گی، شکایات خفیہ رکھی جائیں۔ عدلیہ اور حکومتی شاخوں سے بات چیت کرکے طریقۂ کار طے کرنے کا سنہری موقع ہے۔ عدالتی احاطے میں ایجنسیوں کے نمائندگان کا داخلہ بند ہونا چاہیے۔
پشاور ہائی کورٹ کی تجاویز اور دھمکیاں
اٹارنی جنرل نے پشاور ہائی کورٹ کے ججز کی تجاویز پڑھیں جن میں کہا گیا کہ پشاور کے ججز سے سیاسی مقدمات میں ایجنسیوں نے رابطہ کیا۔ جب قانون کے مطابق فیصلہ کیا تو افغانستان سے دھمکیاں ملیں، کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ سے رجوع کیا گیا لیکن کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
پشاور ہائی کورٹ کے ججز کی تجاویز میں فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ بھی دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے تناظر میں حکومت کو قانون سازی کرنی چاہیے تھی، ہمیں عدالتی فیصلوں کے ذریعے بینچز سے نکالا گیا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا جو سپریم کورٹ میں ہوا۔ دنیا کو نہیں پتا تھا اس وقت پاکستان کو کون چلا رہا تھا؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے لکھ کر دیا کہ جنرل فیض حمید پیچھے تھا، اس لیے حکومت کو تجاویز بھیجیں۔ میری اہلیہ نے تحریری درخواست میں فیض حمید کا نام لیا، ہم نے سرکار پر چھوڑا سرکار قانون سازی کیوں نہیں کر پا رہی۔
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت سات مئی تک ملتوی کر دی۔
فورم