علی رانا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک بھونچال سا آیا ہوا ہے اور مختلف سیاست دانوں کی طرف سے مختلف بیانات سامنے آرہے ہیں لیکن اب ایک معاملہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے سامنے بھی لایا جارہا ہے جس میں اسلام آباد کے ایک وکیل نے سپریم کورٹ میں امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ پر پابندی عائد کرنے کےلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکردی ہے۔
اسلام آباد بار ایسویسی ایشن کے ممبر محمد بلال ایڈوکیٹ نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ یو ایس ایڈ کی ملک بھر میں سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ یو ایس ایڈ کی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز پر بھی پابندی عائد کی جائے۔
امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ ہونے والا معاہدہ منظر عام پر لایا جائے،اور یو ایس ایڈ کی سرگرمیوں کی چھان بین کیلئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔
سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی اس درخواست میں پاکستانی وزارت داخلہ، دفاع اور خارجہ کے سیکرٹریز کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یو ایس ایڈ کا منصوبہ سٹیزن وائس پراجیکٹ بھی فوری بند کیا جائے کیونکہ اس منصوبے کے ذریعے پاکستانی عوام کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔ اس پراجیکٹ کا مقصدامریکی خفیہ اداروں کا سیاسی و انتخابی نظام میں گھسنا ہے۔ یو ایس ایڈ پاکستان میں بہت سی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے جن سے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے تاہم اب تک اس پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
حالیہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ کے ٹوئیٹ، عسکری امداد معطل ہونے اور دونوں جانب سے سخت بیانات کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اورپاکستانی عوام میں امریکہ کے حوالے سے منفی خیالات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصہ سے غیرملکی این جی اوز کے حوالے سے حکومتی کارروائیاں جاری ہیں اور گذشتہ دنوں 22 غیرملکی این جی اوز کو ملک میں کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
اس صورتحال میں سپریم کورٹ میں ایسی درخواست دائر ہونا دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کو ظاہر کرتی ہے۔