سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کا اسلام آباد میں ضبط شدہ فارم ہاؤس کھولنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز مشرف کو واپسی پر رینجرز کی سکیورٹی اور اپنی مرضی کے اسپتال میں علاج کی سہولت ملے گی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے منگل کو 'این آر او' کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز مشرف کے آنے سے پہلے ان کے گھر کی صفائی ستھرائی کی جائے گی۔ ایڈووکیٹ نعیم بخاری اس عمل کا جائزہ لیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز مشرف واپسی کے لیے جو انتظامات چاہتے ہیں، وہ کر کے دیں گے۔ سپریم کورٹ سابق صدر کی سکیورٹی یقینی بنائے گی۔ یہاں آ کر اپنا بیان قلم بند کرائیں، پھر جہاں چاہیں گھومیں پھریں۔ ان سے ان کے اثاثوں کا بھی نہیں پوچھیں گے۔
سابق صدر کے وکیل اختر شاہ نے مؤقف اپنایا کہ پرویز مشرف بزدل نہیں، ان کے آنے جانے پر پابندی نہ لگائی جائے تو وہ واپس آسکتے ہیں۔
سابق صدر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کا دبئی میں 54 لاکھ درہم کا فلیٹ ہے۔ پاکستان میں ان کی کوئی جائیداد نہیں۔ چک شہزاد میں پانچ چھ ایکڑ پر محیط فارم ہاؤس ان کی اہلیہ کے نام ہے جس کی مالیت 4 کروڑ 36 لاکھ روپے ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وہ اپنا فارم ہاؤس چار کروڑ میں بیچیں گے؟ سابق جنرل یہاں سے ریڑھ کی ہڈی میں درد کا بہانہ کرکے نکل گئے۔ بیرونِ ملک جا کر ڈانس کرتے ہیں۔
اختر شاہ نے کہا کہ پاکستان آنے سے پہلے ان کو سکیورٹی چاہیے۔ وہ عدالتوں کی عزت کرتے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پرویز مشرف کو ایک بریگیڈ دے دیں؟ عدالتوں کے احترام کا باتوں سے نہیں رویے سے پتہ چلتا ہے۔ کیا پرویز مشرف کے لیے علیحدہ قانون ہے؟
عدالت نے قرار دیا کہ پرویز مشرف پاکستان میں کہیں بھی اتریں، رینجرز کی سکیورٹی مہیا کی جائے۔ وہ چاہیں تو 'سی ایم ایچ' یا 'اے ایف آئی سی' سے علاج کرائیں۔ ان سے اثاثوں کے بارے میں بھی نہیں پوچھا جائے گا۔ پرویز مشرف کی واپسی کا شیڈول بتائیں۔
اس پر اختر شاہ نے ایک ہفتے کا وقت دینے کی استدعا کی جسے منظور کرتے ہوئے عدالت نے پرویز مشرف کی حد تک معاملے کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔
سابق صدر پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ چل رہا ہے جس کے دوران وہ عدالت کی اجازت سے علاج کی غرض سے بیرونِ ملک گئے تھے لیکن واپس نہیں آئے۔