|
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر مختصر حکم سنایا۔ بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
پیر کو سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم کیس کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق عدالتی حکم نامے میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق فیصلوں کی معطلی اضافی سیٹیں دینے کی حد تک ہو گی۔
سنی اتحاد کونسل نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
الیکشن کمیشن نے مارچ میں اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل نہیں ہے۔ کیوں کہ پارٹی نے انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کے لیے ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔
سنی اتحاد کونسل نے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رُجوع کیا تھا جس نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کیا تھا جس کے تحت پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے تھے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔
دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عوام نے جو ووٹ دیا، اس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مخصوص نشستیں ایک ہی بار تقسیم کی گئیں، دوبارہ تقسیم کا معاملہ ہی نہیں۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ پھر الیکشن کمیشن کا حکم نامہ پڑھ کر دیکھ لیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا زیادہ نشتیں بانٹنا تناسب کے اصول کے خلاف نہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں بتاتا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے اصل میں کیا کیا۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کیا کیا اس سے نہیں آئین کیا کہتا ہے اس سے غرض ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ جس بیک گراؤنڈ میں جا رہے ہیں، اس کے ساتھ کچھ اور حقائق بھی جڑے ہیں۔ ایک جماعت انتخابی نشان کھونے کے بعد بھی بطور سیاسی جماعت الیکشن لڑ سکتی تھی۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 51 کی تشریح کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی۔ عدالت نے کیس لارجر بینچ کے لیے کمیٹی کے سامنے رکھنے کی ہدایت کر دی۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت تین جون تک ملتوی کر دی۔
فورم