شام میں جب سے ناقدین نے کہا ہے کہ لیگ کا مبصر مشن وہاں تشدد کے سلسلے کوروکنے میں ناکام ہو چکا ہے ،حزب اختلاف کی جماعتیں عرب لیگ سے ملک میں غیر ملکی مداخلت کی کوشش کے مطالبوں میں اضافہ کر رہی ہیں ۔
جمعے کے روز شام کے متعدد شہروں میں مظاہرین نماز کی ادائیگی کے بعد صدر بشار الاسد سے ایک بار پھر اقتدار سے الگ ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
سر گرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ مسٹر اسد کی وفادار فورسز نے مظاہرین کے خلاف ایک پکڑ دھکڑ جاری رکھتے ہوئے سڑکوں پر گشت کی ۔ شام کے سر گرم کارکن رامی عبدالرحمان نے وی او اے کو بتایا کہ ملک بھر میں ہونے والے تشدد میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے تین عام شہری جب کہ ایک سیکیورٹی فورسز کا اہلکار تھا۔
عرب لیگ مبصر ٹیم کے سوڈانی سر براہ کی ایک رپورٹ کے جائزے اور اس فیصلے کے لیے اتوار کو قاہرہ میں اجلاس کر رہے ہیں کہ آیا لگ بھگ 165 نگرانوں کی اس ٹیم کو مزید ایک ماہ شام میں رکھا جائے ۔
مبصرین یہ متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا حکومت مسٹر اسد کے خلاف شورش کو پر تشدد طریقے سے کچلنے سے رک جانے کے اپنے عہد پر قائم ہے ۔
جمعہ کو ہونے والے مظاہروں کے شرکا صدر بشار الاسد کی حکومت سے عرب لیگ کے ساتھ طے پانے والے اس معاہدے کے پاسداری کا مطالبہ کر رہے تھے جس کے تحت شامی حکومت نے مخالفین کے خلاف پرتشدد کاروائیاں روکنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
مظاہروں کا تازہ سلسلہ ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب عرب لیگ کے 22 رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اتوار کو ہورہا ہے جس میں شام کے لیے تنظیم کے مبصر مشن کو جاری رکھنے یا ختم کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
عرب لیگ کے عہدیداران کے مطابق تنظیم کے 165 مبصرین اتوار تک شام میں موجود رہیں گے جب کہ اس دوران عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس میں مشن کے سربراہ کی رپورٹ پرغور کے بعد مبصر مشن میں مزید ایک ماہ کی توسیع کرنے یا مبصرین کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
دریں اثنا انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے عرب لیگ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مبصرین کی رپورٹ کو عوام کے لیے بھی جاری کرے۔
تاہم شامی حکومت بیشتر ہلاکتوں کی ذمہ داری مسلح دہشت گردوں پر عائد کرتی ہے جنہوں نے حکام کے بقول حالیہ شورش کے دوران دو ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی ہلاک کیا ہے۔