ایسے میں جب لڑائی میں شدت آنے کےباعث ہزاروں کی تعداد میں شہری اس جنگ زدہ ملک سے بھاگ کر ہمسایہ لبنان اور عراق میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، حلب کے شمالی شہرمیں شامی حکومت کی فوج اور باغیوں کےدرمیان آج دوسرے روز بھی جھڑپیں جاری ر ہیں۔
سرگرم کارکنوں نےحلب میں ہونے والی لڑائی کوشام کے اس کاروباری مرکز اور سب سے بڑی آبادی والے شہر میں اب تک ہونے والی سنگین لڑائی قرار دیا ہے۔
شہر کی زیادہ ترآبادی ابھی تک صدر بشار الاسد کا ساتھ دے رہی تھی اور اسی لیے یہ اب تک ہونے والی خون ریزی سے بچتی رہی ہے جو دیگر علاقوں میں برپہ ہے۔
یہاں آباد لوگوں کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز دمشق میں نسبتاً خاموشی رہی، جس سےقبل کئی روز تک بھاری جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جس کے باعث دارالحکومت کی سڑکوں میں لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
اقوام متحدہ کی اطلاع کے مطابق جمعرات سے اب تک اندازاً 30000شامیوں نے لبنان کی سرحد پار کی ہے۔ عراق میں حکام نے بتایا ہے کہ لگ بھگ 1000افراد فضائی راستے دمشق سے عراق پہنچے، جب کہ زمینی راستوں سے ہزاروں لوگ شام میں شدید ہوتی ہوئی لڑائی سے بچ نکل کر عراق آچکے ہیں۔
شام سےترکی میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد 43000سے زائد بتائی گئی ہے، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ متعدد دیگر لوگ سرحد پار کرکے ترکی کے علاقے میں داخل ہوچکے ہیں، جن کی کل تعداد معلوم نہیں ہوسکی۔
ادھر شام میں لڑاکا باغیوں نے متعدد سرکاری سرحدی چوکیوں کا یا تو کنٹرول سنبھال لیا ہے یا پھر وہ قبضے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فری سیرئین آرمی کے جنگجوؤں نے ترکی کے ساتھ باب الحوا نامی سرحدی کراسنگ پر قبضہ جمایا ہوا ہے جسے گولہ باری کے تبادلے کے بعد حکومت شام کی فوج نے خالی کردیا تھا۔
سرگرم کارکنوں نےحلب میں ہونے والی لڑائی کوشام کے اس کاروباری مرکز اور سب سے بڑی آبادی والے شہر میں اب تک ہونے والی سنگین لڑائی قرار دیا ہے۔
شہر کی زیادہ ترآبادی ابھی تک صدر بشار الاسد کا ساتھ دے رہی تھی اور اسی لیے یہ اب تک ہونے والی خون ریزی سے بچتی رہی ہے جو دیگر علاقوں میں برپہ ہے۔
یہاں آباد لوگوں کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز دمشق میں نسبتاً خاموشی رہی، جس سےقبل کئی روز تک بھاری جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جس کے باعث دارالحکومت کی سڑکوں میں لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
اقوام متحدہ کی اطلاع کے مطابق جمعرات سے اب تک اندازاً 30000شامیوں نے لبنان کی سرحد پار کی ہے۔ عراق میں حکام نے بتایا ہے کہ لگ بھگ 1000افراد فضائی راستے دمشق سے عراق پہنچے، جب کہ زمینی راستوں سے ہزاروں لوگ شام میں شدید ہوتی ہوئی لڑائی سے بچ نکل کر عراق آچکے ہیں۔
شام سےترکی میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد 43000سے زائد بتائی گئی ہے، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ متعدد دیگر لوگ سرحد پار کرکے ترکی کے علاقے میں داخل ہوچکے ہیں، جن کی کل تعداد معلوم نہیں ہوسکی۔
ادھر شام میں لڑاکا باغیوں نے متعدد سرکاری سرحدی چوکیوں کا یا تو کنٹرول سنبھال لیا ہے یا پھر وہ قبضے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فری سیرئین آرمی کے جنگجوؤں نے ترکی کے ساتھ باب الحوا نامی سرحدی کراسنگ پر قبضہ جمایا ہوا ہے جسے گولہ باری کے تبادلے کے بعد حکومت شام کی فوج نے خالی کردیا تھا۔