سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے جمعے کے روز سے جاری گولہ باری میں 90سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں، جن میں متعدد بچے بھی شامل ہیں، اور اسے ایک برس قبل شام میں حکومت مخالف بغاوت کے آغاز سے اب تک ہونے والا تشدد کاایک سنگین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ہولا کے وسطی شہر میں ہونے والے اِن حملوں کےباعث حکومت اور مخالفین کے مابین چھ ہفتے سے جاری کمزور جنگ بندی کی حالت بھی بگڑ کر رہ گئی ہے۔
یوٹیوب پر جاری کیے گئے وڈیوز میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تصاویر دکھائی گئی ہیں۔
ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوپائی۔
’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ حکومت کی طرف سے مارے جانے والے چھاپوں کے نتیجے میں وہاں کےباسی اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور ہفتے کو دمشق میں ایک حکومت مخالف احتجاجی مظاہرہ ہوا۔
فرانسیسی وزیر خارجہ لوراں فوبے نے ہفتے کوتشددکے واقعات کی مذمت کی اور پیرس میں ’فرینڈس آف سیریا‘ کا ایک اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ گروپ شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سرگرم ہے۔
مخالفین سے تعلق رکھنے والی ’سیریئن نیشنل کونسل‘ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ایک ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر حالات کا جائزہ لینے کے لیے ہفتے کے روز اقوام متحدہ کے مبصرین کا ایک وفد ہولا پہنچ گیا ۔