روسی حکام کا کہنا ہے کہ شام کی حکومت ملک میں گزشتہ 10 ماہ سے جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے حزبِ اختلاف سے مجوزہ مذاکرات کی غرض سے اپنا وفد ماسکو بھیجنے پر آمادہ ہوگئی ہے۔
روس کی وزارتِ خارجہ کے حکام نے پیر کو امید ظاہر کی ہے کہ شامی حزبِ اختلاف بھی صدر بشارالاسد کی انتظامیہ سے مذاکرات کے لیے اپنے نمائندے روسی دارالحکومت بھیجنے پہ متفق ہوجائے گی۔
لیکن شامی حزبِ اختلاف کے اہم ترین اتحاد 'سیرین نیشنل کونسل' کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' سے گفتگو میں کہا ہے کہ اتحاد کو تاحال ماسکو میں ہونے والے مجوزہ مذاکرات کی کوئی دعوت موصول نہیں ہوئی ہے اور اگر ایسی کوئی دعوت ملی تو اسے بہر صورت مسترد کردیا جائے گا۔
روس عالمی برادری پر مسلسل زور دیتا آیا ہے کہ شام کے بحران کے حل کے لیے صدر الاسد کی حکومت پر سلامتی کونسل کے ذریعے پابندیوں کے نفاذ کے بجائے فریقین کو مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔
شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مجوزہ مذاکرات کی میزبانی کا روسی بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مغربی ممالک اور عرب اقوام شامی حکومت کے خلاف سلامتی کونسل میں پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد کے مسودے پر کام کر رہے ہیں۔
مجوزہ قرارداد میں شام کے سیاسی بحران کے حل کے لیے عرب لیگ کے تجویز کردہ اس منصوبے کی حمایت کی گئی ہے جس میں صدر الاسد سے اقتدار اپنے نائب کو سونپ کر حکومت چھوڑنے اور شام میں ایک قومی حکومت کی نگرانی میں عام انتخابات کے انعقادکا مطالبہ کیا گیا ہے۔
عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی مذکورہ منصوبہ منگل کو سلامتی کونسل کے اراکین کو پیش کریں گے۔
دریں اثنا شامی حکام کا کہنا ہے کہ ایک "دہشت گرد گروہ" نے پیر کی صبح ایک گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑا دیا ہے۔شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق پائپ لائن کو لبنانی سرحد کے قریب واقع قصبے تلکالخ کے نزدیک تباہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ شام میں گزشتہ برس مارچ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کو کئی بار تباہ کیا گیا ہے ، لیکن تخریب کاری کے ان واقعات کے ذمہ داران کا تعین نہیں ہوسکا ۔